تحریر:محمد نواز طاہر
علم اور ادراک کا دروازہ کبھی بند نہیں ہوتا، ماسوائے ان کے بمطابق قرآن حکیم (جو سیکھنا ، سمجھنا نہیں چاہتے)’’ اوران کے دل مقفل کردیے جاتے ہیں‘‘، یعنی ان کی سمجھنے کی صلاحیت کو تالا لگادیا جاتا ہے اور بس صحیح کے بجائے مخصوص سمت میں ہی سوچ سمجھ سکتے ہیں ، انسان سب سے زیادہ ارد گرد کے ماحول سے سیکھتا ہے۔
لاہور پریس کلب سمیت مختلف مقامات پر ایک صاحب کئی سالوں سے’َ انسان برائے فروخت‘ کا بینر سینے اور کمر پر لگائے پھرتے دکھائی دیتے ہیں ، ان کا درد محسوس کرنے کے بجائے ناہنجار اسے پاگل قراردیتے ہیں ۔
لاہور پریس کلب شدید مالی بحران کا شکار ہے ، اس مالی بحران سے نمٹنے کیلئے کلب کی منتخب باڈی نے کئی ایک منصوبے بنائے ہونگے اوران پر عمل بھی کیا ہوگا لیکن ابھی تک نہ تو بحران حل ہوسکا ہے اور نہ ہی کوئی قابلِ عمل منصوبہ کم از کم میرے جیسے عام رکن کے علم میں آیا ہے جبکہ بحران شدت اختیار کرتا جارہا ہے ۔ اس بحران سے کلب درو دیوار اور سٹاف بھی ویسے ہی متاثر ہو رہا ہے جیسے میڈیا مالکان کی وجہ سے ہم میڈیا کارکن متاثر ہورہے ہیں اور چیخ و پکار کررہے ہیں ۔ اس چیخ و پکار سے ورکر کو تو کوئی فائدہ نہیں ہوا البتہ میڈیا مالکان کو حکومت سے کروڑوں روپے ضرور مل گئے ہیں یا ملنے ہی والے ہیں ۔ کلب کے سٹاف کو بھی بروقت تنخواہ نہیں مل رہی ، اشاعتی و نشریاتی اداروں کے مالکان تو بد نیت ہیں ، کارکنوں کی یہ متفقہ رائے ہے ورنہ انہیں پیسے کی کیا کم ؟ کیا پیسے کی کمی کی وجہ سے ایک اشاعتی و نشریاتی ادارہ نئی فضائی کمپنی بنا رہا ہے ؟ پریس کلب کے سٹاف ممبرز جب ہم اراکین کی طرف دیکھتے ہیں تو انہیں کم از کم میری اور میرے جیسے بہت سے اراکین کی فضائی کمپنی دکھائی نہیں دیتی اسلئے وہ ہماری طرف اس نظر سے نہیں دیکھتے جس جس نظر سے ہم چھانٹیاں کرنے والے مالدار اور طاقتور میڈیان مالکان کی طرف دیکھتے ہیں۔
کبھی کبھی یوں لگتا ہے کہ کلب کا معاشی بحران مصنوعی ہے کیونکہ کبھی بھی کلب کی باڈی نے معاشی بحران پر جنرل کونسل بلا کر یہ معاملہ اراکین کے سامنے نہیں رکھا کہ یہ بحران کیسے پیدا ہوا ؟اس کی ذمہ داری اراکین پر عائد ہوتی ہے یا منتخب باڈی بھی اس میں کسی کوتاہی کی مرتکب ہے ، کوئی اللے تللے اس بحران کی وجہ ہیں ؟ اس سے کس طرح نمٹا جاسکتا ہے ۔؟ حالانکہ مختلف اوقات میں کلب میں الیکشن لڑنے والے مختلف گروپوں سے تعلق رکھنے والے اراکین اس صورتحا ل پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے باہم تجویز پیش کرچکے ہیں کہ اس بحران سے نمٹنے کیلئے سب کو مل کر سوچنا چاہئے مگر عمل نہیں ہوسکا ؟ اس کی وجہ تو منتخب باڈی ہی بتا سکتی ہے یا باڈی میں شامل وہ لوگ جو گفتگو تو کرتے رہے لیکن شائد یہ تجویز ایگزیکٹیو باڈی کے ایجنڈے پر لانے کے کیلئے کسی ذمہ دار عہدیدار سے بات ہی نہ کی ہو ؟
پریس کلب کامعاشی بحران ختم کرنے اور اسے باقائدہ نہلانے دھلانے کیلئے کم از کم دو سوا دوکروڑ روپے کی ضرورت ہے ، جس میں کلب کے سٹاف کی زیر التوا تنخواہیں ، اراکین کی گروپ انشورنس کے بقایا جات ، یوٹیلٹی بل ، دودھ ، سبزی ، گوشت ، اور لائٹ والے سمیت مختلف افراد کے قرضے ، انفراسٹرکچر کی بحالی ، کیفے ٹیریا کے برتن اور بیٹھنے کیلئے کرسیوں کی خریداری شامل ہے ۔
اب سوال یہ ہے کہ اس بحران سے کس طرح نمٹا جائے ؟ میں نے تو اپنے طور پر یہ طے کرلیا ہے کہ میں ان صاحب سے سبق سیکھوں جو اپنے سینے اور کمر پر ’انسان برائے فروخت‘ کا بینر سجائے پھرتے ہیں ۔ میں بھی ان کی طرح ’ووٹ برائے فروخت‘ کا ایک بینر لگالوں۔اب اس کا ریٹ نرخ کیا ہوسکتا ہے ؟ پریس کلب کے تین ہزار اراکین پر دو ،سوا دو کروڑ روپے مساوی تقسیم کیے جائیں تو میرے حصے میں چھ سات ہزار روپے بنتے ہیں لیکن اگر آٹھ ہزار روپے ہزار پر فی کس ہوں تو تقریباً اڑھائی کروڑ روپے اکٹھے ہوتے ہیں ، اسطرح میں اپنا ووٹ آٹھ ہزار روپے میں فروخت کرسکتا ہوں ۔ یعنی پریس کلب کے ہر رکن کو’ قوم ‘پر واجب قرضے یا بوجھ میں سے اپنے حصے کا آٹھ ہزار روپہ ادا کرنا ہے جو زندہ قوموں کیلئے کوئی بہت بڑا چیلنج نہیں ہے۔
لیجئے صاحب ! اپنی جیب میں پیسے نہیں ہیں تو میں نے ووٹ برائے فروخت کا بینر لگانے کا فیصلہ کر لیا ہے ۔ دردِ دل رکھنے والے باقی اراکین بھی قدم بڑھائیں اور پریس کلب، جس کی عالی شان عمارت ایک کھنڈر دکھائی دیتی ہے اور سٹاف کا استحصال ہورہا ہے ، وہ استحصال ختم کرنے اور شان کی بحالی کیلئے آپ بھی اپنا ووٹ میری طرح برائے فروخت کے بینر کے ساتھ ’’پیش‘‘ کریں یا کم از کم آٹھ ہزار روپے کنٹری بیوٹ کریں اور یہ پیغام دوسروں تک بھی پہنچائیں کیونکہ کلب ہمارا دوسرا گھر ہے ، ہمارا وقار ہے اور اسے ہم نے بچانا و سنبھالنا ہے ، تبدیلی والی حکومت سے ہی ہر امید نہ رکھیں کہ وہ ہماری اس قدر مالی معاونت کرے گی ۔
ہاں ! برارانِ ملت ! ذرا توجہ فرمائیں ۔ ابھی پریس کلب کے الیکشن کی سرگرمیاں شروع ہوچکی ہیں ، ذرا کمیونٹی کی فلاح کا درد رکھنے والے امیدوراوں سے ایک سوال ضرور کریں اور پوچھیں کہ ان کے پاس معاشی بحران سے نمٹنے کا قابلِ عمل ایجنڈا کیا ہے ؟ اور کیا وہ پچھلے سالوں کا فرانزک آڈت کرانے کیلئے تیار ہیں ؟ یا کم از کم پچھلے پانچ سال کے بینک سٹیٹمنٹ کی کاپی فرہم کریں گے ؟ جبکہ اس سے آگاہ رہنا ہر رکن کا بنیادی آئینی حق ہے۔(محمدنوازطاہر)۔۔