تحریر: مناظر علی۔۔
ہم جب انگلی اٹھاتے ہیں تو پھر اس بات پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ایک انگلی دوسروں کی طرف اٹھتے ہی ہماری اپنی چار انگلیوں کااشارہ ہماری طرف ہوجاتاہے،یہاں عقلمندوں کے لیے اشارہ ہی کافی ہے،بحرحال ہم صرف اشارے ہی نہیں،صاف بات کرنا چاہتے ہیں کہ لاہور پریس کلب کے الیکشن متنازعہ ہوگئے ہیں جس پر صحافیوں کے سنجیدہ حلقوں میں خاصی تشویش پائی جارہی ہے،یہ تشویش بھی خاصی تشویشناک ہے کہ ہمارا تعلق جس طبقے سے ہے ہم ملکی سیاست،اقتدارکے ایوانوں اور لوگوں کے مسائل کی نشاندہی کرتے دن رات تھکتے نہیں مگر ہم خود کن مسائل میں گھرے ہوئے ہیں شاید اس پر کھل کر بات نہیں کرپاتے یا کرنا ہی نہیں چاہتے حالانکہ ہر صحافی دل ہی دل میں یہ خواہش رکھتاہے کہ وہ ایسا کرے مگر بہت سی زنجیروں میں جکڑی زبانیں اور قلم یہاں کچھ بولنے اور کچھ لکھنے سے قاصر ہی نظر آتے ہیں۔
ایک وہ دور تھا جب لاہور پریس کلب کی ممبرشپ میں لوگوں کی دلچسپی نہ ہونے کے برابر ہوتی تھی اور یہاں چائے کی چسکیوں پر اپنی خبریں ڈسکس کرنے والے،ہاسٹل میں رہنے والے دوسروں شہروں کے صحافی اور وہ لوگ جن کا اوڑھنا بچھونا ہی صحافت ہوتاتھا،نظرآتے تھے مگر پھر صحافی کالونی کی صورت میں ایک سرکار ی عنایت ہوئی جس کے بعد ہر خاص وعام کی نظر پریس کلب کی ممبرشپ اور ہردوسرے صحافی کی نظرکلب کے اقتدار پر جم گئی،ممبرشپ لینے کے لیے تمام کوششیں اور اقتدار کی کرسی پر بیٹھنے کیلئے ایڑی چوٹی کازورلگنے لگا۔
لاہور پریس کلب جسے حقیقی معنوں میں کلب ہونا چاہیے تھا،وہ صرف پلاٹوں کی سیاست کامرکز ومحوربن گیااور آج ہم 2021کے اس سرد موسم میں اس پوزیشن پر ہیں کہ الیکشن میں دھاندلی کے الزامات اور بیلٹ پیپرزغائب ہونے کے گرما گرم نعرے سن رہے ہیں،تادم تحریر نہیں معلوم کہ یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا،ری کاؤنٹنگ تو اتوار اور پیر کی رات کافی ہوچکی ہےجس کے بعد ری پولنگ یا ری شیڈول کی طرف جانے کا قوی امکان ہے،اس کے بعد کیاہوتاہے،تمام صدارتی امیدواروں میں سے اقتدارکس کے حصے میں آتاہے یہ تو وقت ہی بتائے گا مگر وقت کاتقاضایہ ہے کہ تھوڑا وقت نکال کر غریب صحافیوں،بے گھرکارکنوں کے مسائل حل کرنے کیلئے ذراوقت دیں تو ان کا وقت بہترہوسکتاہے،اقتدار،اقتدار کی گیم کھیلنے کیساتھ ساتھ اگر صحافیوں کے سب سے بڑے مسئلے صحافی کالونی فیز ٹوکوحقیقی معنوں میں حل کرلیں(شرط یہ ہے کہ یہ ٹرک کی بتی نہ ہو)۔
کرائے کے مکانوں میں دھکے کھانے والوں کے درد کو محسوس کرکے،ان کی پریشان حال فیملیز کو اپنی فیملیز جان کر ان کی جان اس عذاب سے چھڑا دیں تو کیا ہی بھلا ہو،ممکن ہے اگر یہ کام خلوص نیت سے ہوجائے تو ان پلاٹوں کے بدلے جنت الفردوس کے کسی کونے میں اس کارخیر کے حصے داروں کو بھی ایک آدھا پلاٹ مل جائے،بس یہ ہم میں سے ان لوگوں نے فیصلہ کرناہے جو کلب کی آئندہ کیلئے باگ ڈور سنبھالیں گے۔(بشکریہ پاکستان)۔۔