تحریر:میم سین بٹ ۔۔
لاہور پریس کلب لائبریری سے ہمارا عشروں پہلے تعلق قائم ہوا تھا جب ہم پریس کلب کے ایسوسی ایٹ ممبر بنے تھے کتاب سے پرانا تعلق بلکہ لڑکپن کے دوران قلعہ سوبھا سنگھ سیالکوٹ میں ذاتی گھریلو لائبریری بنانے اور بعدازاں فیصل آباد میں میونسپل لائبریری ، علامہ اقبال لائبریری اور مکتبہ سیاح لائبریری طارق آباد کی کتابیں پڑھنے کے باعث ہمیں لائبریریوں سے خاص لگائو تھا لاہور منتقل ہونے کے بعد ہمارا سب سے پہلے پریس کلب لائبریری سے تعارف ہوا تھا پھر ہم نے شہناز مزمل کی کتاب پڑھی تو لاہور شہر کی تمام اہم لائبریریوں سے متعارف ہوگئے تاہم صرف دیال سنگھ ٹرسٹ لائبریری اور پنجاب پبلک لائبریری کی رکنیت حاصل کی تھی سب سے پہلے ہم نے پریس کلب لائبریری سے کتابیں جاری کرواکر پڑھنا شروع کی تھیں ہمیں یاد ہے آغاز میں ہم نے یہاں سے پریس کلب کے سابق صدر بدرمنیر چوہدری ، بزرگ صحافی شفقت تنویر مرزا ، نعیم اللہ ملک کے علاوہ پنڈی بھٹیاں کالج کے سابق پرنسپل پروفیسر اسد سلیم شیخ کی کتابیں جاری کروا کرپڑھی تھیں۔
اس زمانے میں ہمارے علاوہ پریس کلب کے جو ارکان لائبریری سے کتابیں جاری کروا کر پڑھاکرتے تھے ان میں بزرگ صحافی راجہ اورنگزیب ، عظیم قریشی ، اقبال بخاری ، احمد شاہ ، امجد بیگ ، ازھر منیر ، اسرار غنی اسد ، سابق سیکرٹری ذوالفقار مہتو ، سابق جوائنٹ سیکرٹریز فرزانہ چوہدری ، خواجہ نصیر ، سابق ممبرز گورننگ باڈی رانا کرام ، عطیہ زیدی ، قمرالزمان بھٹی ، ظہیر شیخ کے علاوہ خواجہ آفتاب حسن ، احسن ضیاء ، اسلم زبیر ، عاصم حمید ، شاہد اقبال ، شاہد محمود ، غلام عباس ، ناصر زیدی ، نسیم نیازی ، عمران علی ، فرزند علی ، علی زیب ، سیف اعوان اور صلاح الدین انقلابی وغیرہ کے نام شامل تھے ایک عشرہ قبل سابق ممبر گورنمنٹ باڈی شیخ آفتاب حنیف کی زیر سرپرستی جب بزرگ صحافی شفقت تنویر مرزا کی سربراہی میں پریس کلب کی ادبی کمیٹی بنائی گئی تھی تو کلب لائبریری کی کتابوں میں اضافہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا اس سلسلے میں فنڈز بھی جاری کئے گئے ان دنوں بھی ارشد نصاری ہی پریس کلب کے صدر تھے پاک ٹی ہائوس کے باہر انارکلی چوک تک اتوار کو لگنے والے بک سٹالز سے کلب لائبری کے لئے اہم ضخیم کتب کی خریداری کیلئے ہم بھی شیخ آفتاب حنیف کے ساتھ گئے تھے ، بزرگ صحافی انوار قمر نے بھی اپنے دوست ادیبوں و شاعروں سے ڈھیروں کتابیں بوریوں میں لا کرکلب لائبریری کو دی تھیں ہمارے پاس بھی تبصرے کیلئے ناشرین سے ملنے والی کتابوں کا چھوٹا سا ذخیرہ موجود تھا ہم نے اپنی پہلی 2 کتابوں “سرکا پہلوان “(2003ء)اور” نواز شریف۔ وزارت عظمیٰ سے جلا وطنی تک “(2007ء) سمیت 2 درجن کتب لائبریری کو دے دی تھیں بلکہ بعدازاں چھپنے والی اپنی تیسری کتاب “لاہور ۔ شہر بے مثال “(2012 ء)اور چوتھی کتاب” لاہور کامقدمہ”( 2022ء) بھی ہم نے پریس کلب لائبریری کو عطیہ کردی تھیں۔
بزرگ صحافی عزیز (مرحوم) کی زیرصدارت دن کے وقت ہم جونیئر صحافی پریس کلب لائبریری میں محفل جمایا کرتے تھے ، ادریس بٹ (مرحوم) راشد بٹ (مرحوم ) حامد جاوید (مرحوم )اختر حیات( مرحوم) جیسے سینئر صحافیوں کے علاوہ قیصر چوہان بھی ہمارے ساتھ پریس کلب لائبریری کی نشست میں شریک ہوتے تھے ، چند برس بعد عزیز مظہر صاحب کی وفات پر راجہ جلیل حسن اختر صاحب نے محفل کی صدارت کرنا شروع کر دی تھی ، مزید کچھ عرصہ بعد راشدبٹ ، ادریس بٹ ، اختر حیات ، حامد جاوید اور راجہ جلیل حسن اختر کی یکے بعد دیگرے وفات کے باعث پریس کلب لائبریری کی دن کے وقت روزانہ منعقد ہونے والی علمی محفل اجڑ گئی تھی ہم نے رات کے وقت دفتر سے ڈیوٹی ختم کرکے پریس کلب پہنچ کر کیفے ٹیریا سے کھانا کھانے کے بعد لائبریری میں بیٹھ کر لکھنا پڑھنا شروع کردیا تھا کبھی کبھارکامران طارق اور شہزاد فراموش کے ساتھ لائبریری میں ہی رات کے وقت گائیکی کی محفل بھی برپا کر لیاکرتے تھے اس زمانے میں لائبریری کے عقب میں لائف ممبر روم بھی ہوا کرتا تھا جس میں رات کے وقت ازھر منیر بیٹھتے تھے جبکہ اقبال بخاری لائبریری میں بیٹھا کرتے تھے اور پھر لائبریری میں توسیع کرتے ہوئے لائف ممبر روم کو بھی لائبریری میں شامل کرکے اس کا دروازہ باہر ٹیرس پر رکھ دیا گیا تھا کیرم روم کو نیا لائف ممبر روم بنا دیا گیا تھا مگر ازھر منیر نے پریس کلب کے باہر فٹ پاتھ پر ڈیرہ جمالیاتھا۔
کلب لائبریری میں دیوار پر ایک سکیچ آویزاں چلا آ رہا تھا جو بزرگ صحافی اور ادیب و شاعر بابا ظہیر کاشمیری کا سکیچ تھا اور کلب لائبریری انہی ظہیر کاشمیری سے منسوب تھی ٹیرس پر دروازہ کھلنے کے بعد لائبریری کتابوں سے محروم ہونے لگی اور چند ماہ کے دوران لائبریری کی حالت تباہ ہو گئی رواں سال کلب کے نئے نائب صدر امجد عثمانی لائبریری کی حالت دیکھ کر حیران رہ گئے بلکہ پریشان ہو گئے وہ یہ معاملہ فوری طور پر صدر پریس کلب ارشد انصاری کے نوٹس میں لائے جنہوں نے اس کی حالت سنوارنے کیلئے امجد عثمانی کی سربراہی میں ہی لائبریری کمیٹی تشکیل دے دی جس میں اظہر غوری ، اقبال بخاری ، شہباز انور خان ، طارق کامران ، سعید اختر ، شہزاد فراموش ، محمد عبداللہ ، سلمان رسول ، شعیب مرزا ، صبا ممتاز بانو اور ہمیں بھی بطور رکن شامل کیا گیا چیئرمین لائبریری کمیٹی نے سب سے پہلے کلب ملازم نقاش خالد کو بطور لائبریرین مستقل ڈیوٹی پر تعینات کروایا ، ائر کنڈیشنر بھی باقاعدہ چلوایا پھر روزانہ اخبارات کا فائل تیارکروایاجانے لگا اس کے بعد محمد عبداللہ کے تعاون سے لائبریری میں کمپیوٹر رکھواکر سی سی ٹی وی کیمرہ بھی نصب کروادیا گیا لائبریری کمیٹی کے پلیٹ فارم سے طارق کامران نے سینئر صحافیوں کے ساتھ شام منانے کاسلسلہ شروع کردیا ۔
لائبریری کیلئے کتابوں کے عطیات وصول کرنے کیلئے شہزاد فراموش ، سعید اختر ، صباممتاز بانو نے مختلف اشاعتی اداروں سے رابطے شروع کردیئے جن کے اچھے نتائج برآمد ہوئے ، سانجھ پبلیکیشنز کے ڈائریکٹر امجد سلیم منہاس ، بک ہوم پبلشرز کے چیئرمین محمد سرور اور سب سے بڑھ کر قلم فائونڈیشن کے چیئرمین علامہ عبدالستار عاصم نے کتابوں کے عطیات دیئے علامہ عاصم نے اپنے اشاعتی ادارے قلم فائونڈیشن کی جانب سے 2 لاکھ روپے مالیت کی 100 کتب لاہور پریس کلب لائبریری کیلئے بھجوادیں ، مجلس ترقی ادب ، اردو سائنس بورڈ ، اقبال اکیڈمی جیسے سرکاری اشاعتی اداروں سے بھی کتب کے عطیات موصول ہوئے ، شہزاد فراموش نے اپنے کسی دوست سے الماری کیلئے رقم فراہم کی تو سعید اختر نے سینئر صحافی و شاعر ندیم شیخ کے ذریعے کلب لائبریری کیلئے نئی الماری تیار کروالی چیئرمین لائبریری کمیٹی امجد عثمانی نے بھی اپنے کسی مخیر دوست کو کلب لائبریری کیلئے چند الماریوں کا عطیہ دینے کیلئے کہہ رکھا تھا جنہوں نے اکتوبر کے آخری عشرے میں پریس کلب لائبریری کو 5 تیار شدہ الماریاں فرام کر دیں ۔
علامہ امجد عثمانی کی کوششوں سے کلب لائبریری کی حالت بہت اچھی ہو چکی ہے اس میں ای لائبریری کا شعبہ بھی قائم کردیا گیا امید ہے کہ نومبر میں کسی علمی شخصیت سے بابا ظہیر کاشمیری لائبریری کا افتتاح بھی کروا دیا جائے گا ، کلب کے لائف ممبرطارق کامران نے بابا ظہیر کاشمیری کا پورٹریٹ تیار کرواکر لائبریری کو عطیہ کیا پورٹریٹ کے نچلے حصے میں ظہیر کاشمیری کا تفصیلی تعارف بھی درج کیا گیاہے لائبریری میں اس پورٹریٹ کی موجودگی بہت ضروری تھی کیونکہ کلب لائبریری بابا ظہیر کاشمیری سے ہی منسوب ہے ، طارق کامران کا یہ کارنامہ ہمیشہ یاد رہے گا ، محمد عبداللہ نے لائبریری کیلئے کمپیوٹر اور سی سی ٹی وی کیمرہ سپانسر کروایا ہے ، شہزاد فراموش نے اشاعتی داروں سے پریس کلب لائبریری کیلئے اشاعتی اداروں سے کتب کے عطیات کی وصولی کے سلسلے میں موٹر بائیک پر بے حد بھاگ دوڑ کی ان علمی خدمات کے صلے میں انہیں پریس کلب کی لائف ممبر شپ ضرور ملنی چاہیے جبکہ محمد عبداللہ ، طارق کامران اور صبا ممتاز بانو بھی پریس کلب باڈی کی جانب سے سرٹیفکیٹ کے مستحق ہیں ۔(میم سین بٹ)۔۔