press club mein aaj children maila lagega

لاہور پریس کلب کی صدارت کا تاج کس کے سر؟

تحریر: علی رضا رحمانی۔۔

سردیاں آتے ہی صحافیوں کے دوسرے گھر لاہور پریس کلب کی رونقیں بحال ہوتی ہیں ویسے تو کلب میں سارا سال چہل پہل رہتی مگر دسمبر کے کے مہینے میں کلب کی رونقیں جوش و خروش کے ساتھ بڑھ جاتی ہیں ۔ ایک دوسرے کے ساتھ ایک ہی ادارے میں کام کر۔یوالے صحافی کلب کے پلیٹ فارم سے ایک دوسرے کے ساتھ مد مقابل ہوتے ہیں اور الیکشن کو ایک فیسٹول کے طور پر مناتے ہیں۔۔

ویسے تو کئی سالوں سےلاہور پریس کلب کی سیاست بھی دو پارٹی سسٹم کے مطابق چلتی آ رہی ہیں گوکہ چھوٹے چھوٹے مختلف گروپس بھی اپنا ووٹ بنک رکھتے ہیں مگر اصل مقابلہ پروگریسیو پینل اور جرنلسٹ پینل کے درمیان ہوتا تھا۔۔پچھلے دو تین سالوں سے پرگرویسو گروپ کے کچھ لوگوں نے الگ ہو کر پہلے پروگریسیو لوور کے نام سے دھڑا بنایا پھر پچھلے سال فرینڈز کا قیام عمل میں آیا اور اس بار ایک پائنیر گروپ اعظم چوہدری کی قیادت میں ایک بڑے گروپ کے طور پر سامنے آیا۔۔اس سال اصل مقابلہ ان تین گروپوں کے درمیان ہے۔ اگر پریس کلب اور صحافیوں کے چند بڑے مسائل کی بات کی جائے تو صحافی کالونی میں سر فہرست معاملہ ایف بلاک کی ڈویلپمنٹ ، بی بلاک اور فیز ٹو کا معاملہ جو کے 1800 کے قریب صحافیوں سے منسلک ہے۔

پروگریسو فرینڈز الائنس کے صدر بابر ڈوگر نے کہا پچھلے چند سالوں سے جیسے میڈیا انڈسٹری کو مشکلات کا سامنا رہا اس میں ہماری صحافتی لیڈر شپ کو پان الوہاب منوانا چاہیے تھا مگر افسوس کہ ہماری قیادت ایسے لوگوں کے ہاتھ رہی جو اپنے مقاصد کے لئے کمیونٹی کو بیچتے رہے ۔ ہمارے یہاں نوجوان صحافیوں کا مسئلہ ہے انکے لئے فیز ٹو کا قیام ہے تین چار سالوں سے انکو لالی پاپ دیا جا رہا ہے ۔ میں بطور سیکرٹری لاہور پریس کلب جب حکوت سے بات کی تو پتہ چلا اس پر کوئی کام نہیں ہوا انشا اللہ ہمارا پورا پلان اس پر تیار ہے اگر اللہ نے موقع دیا تو لوگوں کو مایوس نہیں کریں گے ۔ یہاں پر بدقسمتی کی بات ہے ایسے ایسے لوگ ممبر ہیں جن کا صحافت سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں اگر مجھے دوستوں نے ووٹ دے کر کامیاب بنایا تو پہلے مہینے ہی اسکروٹنی کر کے جعلی صحافیوں کو نکال کر نوجوان ورکنگ صحافیوں کو ممبر شپ دی جائے گی ۔یاک اور اہم بات آگے ڈیجیٹل میڈیا کا دورہے اس حوالے سے میرے کافی پلان ہیں انشا ایک ڈیجیٹل لیب سمیت اسٹوڈیو کا قیام بھی میرے منشور کا حصہ ہے ۔

پائینر گروپ کے صدارتی امیدوار اور سابق صدر لاہور پریس کلب اعظم چوہدری نے کہا میرا بڑا سادہ سا منشور ہے خدمت کی سیاست ، کیونکہ ماضی میں بھی میں نے اپنی برادری کی خدمت کی ہےاور میرا ماضی اس چیز کا گواہ ہے ہمیشہ خدمت کے جذبے کے ساتھ میدان میں آتے تو اللہ پاک بھی اس میں اپنی مدد کرتا ہے تمام مشکل مسائل بھی حل ہو جاتے ہیں ۔ ہم نے بی بلاک میں 100 کے قریب افراد کے پلاسٹر قبضہ مافیا سے کلئیر کروائے ۔14 سال پرانا ایف بلاک کا ایشو بھی حل کرنے کی کوشش کی پلاٹون کی بیلٹینگ کروا کر کلب کے معزز ممبرز میں لیٹرز تقسیم کیے۔ اب جو ہمارے جو بڑے مسائل ہیں ان میں بی بلاک کے کچھ پلاٹس ہیں انکے متباد پلاٹس ممبر کو دلوانا اور اس کے ساتھ ساتھ ایف بلاک کی ڈیویلپمنٹ مکمل کرواکر پوزیشن دلوانا اور 1800 کے قریب جو فیز ٹو کے ممبرز ہیں ان کے لئے چھت کا قیام عمل میں لانا یہ میرا مشن اور منشور ہے۔ اگر اللہ نے کامیابی دی تو اس بار بھی کمیونٹی کی خدمت کریں گے ۔ جو جعلی صحافی ہیں انکی اسکروٹنی کرکے میرٹ پر نوجوان صحافیوں کو ممبر شپ دی جائے گی ۔

جرنلسٹ گروپ کے امیدوار جاوید فاروقی کا کہنا ہے کہ اس سال ممبرز نے دیکھا جرنسلٹ گروپ نے کس طرح سے کلب کی خدمت کی ، ہم نے کلب کی تزین و آرائش کی، آج سے تین سال پہلے جب کلب ہمیں ملا تو اس وقت اسکی حالت کیا تھی یہ سب جانتے ہیں ، کلب ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھا ، مالی اور انتظامی طور پر بری حالت کا شکار تھا سوا کروڑ سے زائد کا خسارہ تھا ، ہم نے مسلسل کوشش کی حکومت کی جانب سے 50 لاکھ سے بڑھ کر گرانٹ دو کروڑ روپے کروائی اور کلب کی آمدنی بڑھانے پر زور دیا اور اس میں شفافیت لائے ۔یہی وجہ ہے 90 لاکھ سے زائد رقم ہم نے اکاؤنٹ میں چھوڑی ۔اب کلب کے اوپر ایک روپے کا قرضہ نہیں ہے ۔ ہم نے کلب انشورنس کا پریمیم بحال کیا 7 لاکھ سے بڑھا کر 1 ملین تک کروایا۔ آگے فیز ٹو ایک بڑا مسئلہ ہے انشاللہ اس پر بھی ہم کام کریں حکومت کو 180 کنال کی زمین کی ریکوزیشن بھیجی ہے اور حکومت کو تجویز دی ہے ملٹی اسٹوری ٹاور میں اپنے ممبرز کو چھتیں فراہم کروا سکیں انشاء اللہ اگر ہمیں موقع ملا تو ایک بار پھر سے ممبرز کی خدمت کریں گے۔۔

آزاد امیدوار زاہد شیروانی نے کہا کہ کہ کئی سالوں سے اس الیکشن پراسس سے دور تھا مگر پچھلے تین چار سالوں سے ایسے لوگ کلب کے اندر بااختیار ہو گئے جن کے خلاف ہم باقاعدہ مہم چلاتے رہے یہ لوگ کمیونٹی کو اپنے مذموم مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں جو صحافیوں کے لے ٹھیک نہیں انکا راستہ روکنا چاہیے اس مقصد کے تحت میں نے تین سال قبل الیکشن میں بطور خزانچی آزاد حیثیت میں الیکشن لڑا اللہ نے عزت دی اور میں نے اس سال کلب کے معاملات خوش اسلوبی سے چلائے جس میں کلب کی تزین و آرائش سمیت ہم نے کلب کی انشورنس بحال کی ، پریمیم ادا کیا اور خزانے میں 90 لاکھ روپے چھوڑے۔۔بطور صدر لڑنے کا فیصلہ اس لئے کیا ہمارے جرنلسٹ گروپ کچھ لوگوں کی اجارہ داری قائم اس کو توڑنے کے لئے میں بطور آزاد امیدوار صدر کی سیٹ پر الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا انشاللہ جیت کر پہلے سے بہتر پرفارم کروں گا۔۔

ڈیموکریٹس کے صدارتی امیدوار میاں ہارون کہتے ہیں میں پہلی بار الیکشن لڑ رہا ہوں میں خود نیوز ڈیسک سے وابستہ ہو میں یہ سمجھتا ہوں سب سے زیادہ جو متاثر لوگ ہیں وہ ڈیسک کسے وابستہ ہیں کیونکہ انکا میل جول عوام اور سیاسی لیڈر شپ کے ساتھ اس لئے کم ہوتا ہے کہ ہم ان ہاؤس کام کرتے ہیں سب سے زیادہ ووٹ بھی ان لوگوں کا ہے اسی امید کے ساتھ ڈیسک کی نمائندگی کرتے ہوئے میدان میں اترا ہو اپنے دوستوں کے ساتھ ہمیں بڑا مثبت ریسپانس ملا ہے انشاللہ ہم نے ایک آواز کو بلند کرنے کی کوشش کی ہے مجھے امید ہے اللہ پاک ہمیں کامیابی سے ہم کنار کرے گا اگر ہمیں موقع ملا تو بھرپور خدمت کریں گے

پریس کلب کے الیکشن کا معرکہ 9 جنوری کو ہوگا فاتح کون ہو گا اس کا فیصلہ ووٹرز کریں گے۔۔(علی رضا رحمانی)۔۔

sentaalis ka pakistan | Javed Chaudhary
sentaalis ka pakistan | Javed Chaudhary
Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں