alu timatar lelo sahafi lelo

لاہور پریس کلب کے ملازمین۔۔

تحریر: محمد نوازطاہر۔۔

 سرما کی پہلی بارش نے مالی بحران کے شکار لاہور پریس کلب کے ملازمین کے چہروں پر مایوسی کی دھند اُڑا دی ہے اور چہرے اب کھل اٹھے ہیں ،یہ زرخیز اور گلاب چہرے کم و بیش دو سال ویران، ریگستان تھے، ان چہروں پر پچھلے ایک ہفتے تک مایوسی اور اداسی، ناامیدی غصہ اور بے بسی نمایا ں تھی اور یقین نہیں تھا کہ انہیں اس مہینے بھی تنخوہ ملے گی یا تنخواہ کی نئی تاریخ ملے گی حالانکہ پنجاب حکومت کی طرف سے پریس کلب کو چیک بھی مل چکا تھا لیکن کیش ہونے کے سرکاری طریقِ کار کے مطابق دستیاب وقت مہینوں کا وقت لگ رہا تھا ، ملازمین شدید مشکلات کا شکار تھے ، یہ مشکلات جہاں وہ خود محسوس کررہے تھے وہیں کلب کے اراکین کےے دل میں بھی اس کی ٹیسیں اٹھتی تھیں ۔ ملازمین کے چہروں اور گفتگو سے جو بھیانک منظر بنتا تھا وہ اس سے قطعی مختلف نہیں جو اس وقت میڈیا انڈسٹری کے کارکنوں کے چولہے بھجنے سے بناہو ہے ۔جیسے ڈراﺅنا خواب اور اس کا فلیش بیک۔۔۔

پاکستان میں صحافیوں کی تنخواہیں کبھی بھی کنبہ باوقار پالنے کے لئے کافی، معاشی حالات کبھی بھی آئیڈیل نہیں رہے، تنخواہیں دوسرے شعبوں سے کم ،کبھی تنخواہ مل گئی کبھی نئی تاریخ اور نیا وعدہ مل گیا ۔۔ ۔ مجموعی طور پر صحافت ( دیانتدارانہ ) میں کارکن معاشی مشکلات کا شکار ہی رہے ہیں اور معاشی حقوق کی جنگ ہی لڑتے رہے ہیں۔

قیامِ پاکستان سے قبل ’پیسہ اخبار کی انتظامیہ کو یہ کریڈٹ ‘ حاصل ہے کہ اس نے مشینری اور ردی تک بیچ کر کارکنوں کے واجبات ادا کیے جبکہ اس کے برعکس کریڈٹ روزنامہ ’زمیندار‘ کے مبلغِ اسلام مالک رکھتے ہیں کہ انہوں نے کارکنوں کے پیسے دبانے اور مفت کام لینے کی طرح ڈالی ۔قیامِ پاکستان کے بعد کچھ اخبار پنپتے رہے ، کچھ بقاءکی جنگ لڑٹے رہے لیکن کارکنوں کے معاملات یونہی رہے جس کے گواہ بعد میں میڈیا مالک بننے والے کارکن خود بھی ہیں اور انہوں نے بطور کارکن حاصل ہونے والے اپنے ’تجربے‘ بھی ’کام ‘چلایا ہے۔

صحافت کے شعبے میں تنخواہوں میں بہتری دو نئے اخبارات ” انگریزی اخبا ردی فرنٹئر پوسٹ اور اردو اخبار روزنامہ پاکستان“ کے اجرا ءسے ہوئی بعد میں نئے آنے والے اخبارات نے مالی بہتری کی جانب رُخ کیا لیکن مہنگائی کا تناسب نہیں دیکھا اور نہ ہی دیگر شعبوں کے تناسب سے تنخواہین ادا کیں بلکہ من پسندی کا نیا کلچر متعارف کرایا گیا۔موجودہ بحران میں اس کلچر کا بھی اہم کردار ہے ۔

 لاہور پریس کلب کے ملازمین کی تنخواہوں کے معاملے پر میں نے فلیش بیک میں اپنا بے بس چہرہ اور اس پرریمبو بھی دیکھی ۔میں دیکھ رہا ہوں کہ میں روزنامہ مساوات لاہور کے بعد نوے کی دہائی میں ہوں ، کراچی کے ایک اخبار کا ملازم ہوں ، مجھے جاری کیے جانے والے لیٹر کے مطابق ماہانہ تنخواہ سینتالیس سو روپے علاوہ پیشہ ورانہ اخراجات بشمول ٹیلی فون، اسٹیشنری ،۔۔۔ تین ماہ ہوگئے ، تنخواہ نہیں ملی ، روز تاریخ پر تاریخ ۔تایخ پر تاریخ۔۔ فلیٹ کا کرایہ اور یوٹیلٹی بلوں کا بھی نادہندہ ، زندگی کے نقد کا دارومدار ادھا رپر ہے،پھر میں کراچی جاتا ہوں ، مجھے تین ماہ کی تنخواہ اکٹھی ادا کی جاتی ہے ، یہ تنخواہ نیوز ایجنٹ سے پیسے لیکر دی جاتی ہے جس میںنوے فیصد پانچ ،پانچ روپے کے نوٹوں کی گڈیاں شامل ہیں ، ، میرا بیگ پیسوں سے بھر جاتا ہے اور میں خوشی خوشی انقلاب ماتری(مرحوم) کا شکریہ اد کرکے لوٹ آتا ہوں لیکن لاہور پہنچنے پر مہربانوں کی ادائیگی کےلئے حساب کرتا ہوں تو معلوم ہوتا ہے کہ اگلے روز کا سرکل چلانے کے لئے پھر کسی مہربان سے ملنا اور ملاقات کے وقت ادھار مانگنے والا منہ بنانا ضروری لازم ہوچکاہے ۔۔۔۔تھوڑا سا ادھار لینے کے بعد معاملات روٹین پر آگئے اور اخبار کے مالی بحران سے دوچار ہونے تک معاشی صورتحال خراب نہیں ہوئی۔۔

لاہور پریس کلب میں ملازمین کو بھی تنخواہوں میں تاخیر کا سامنا معاشی بحران کی وجہ سے کرنا پڑا ، اس میں بیڈ فنانشل مینجمنٹ بھی ایک محرک ہوسکتی ہے اور کوتاہی یا نالائقی بھی۔۔۔ لیکن مشکلات کا سامنا تو کلب کے سٹاف کو کرنا پڑا ، پچھلے سال پریس کلب کے سالانہ الیکشن کے وقت سٹاف کی دو یا تین تنخواہیں کلب کے ذمے واجب الادا تھیں ، موجودہ باڈی یہ زیر التوا تنخواہیں بروقت ادا نہیں کرسکی بلکہ اس کے ذمہ بھی واجبات کے اعدادو شمار بڑھنے لگے ، یہ صبر آزما اور انتہائی تکلیف دہ معاملہ تھا، کلب کی منتخب باڈی کی ذمہ داری تھی کہ چاہے جو بھی ہو ، کلب کے سٹاف کو تنخواہ ادا کرے لیکن ایسا نہیں ہورہا تھا اور اس بحث نے گورننگ باڈی اور دوستوں میں دُوریاں پیدا کردیں کیونکہ گورننگ باڈی کے منتخب اراکین میں سے کچھ لوگ تو یہ ادائیگی اپنا فرض ہی نہیں سمجھتے تھے اور ان کی لاپرواہی و لاابالی پن ہیجان کا باعث بن رہا تھا، انہی می سے کچھ لوگ پھر سے الیکشن میں اپنی خدمات پیش کریں گے ، ان کی ماضی کی خدمات کو بھی سامنے رکھنا ہوگا اور حال کو بھی۔۔۔ ساتھ ہی ساتھ یہ تحقیقات بھی ہونا چاہئیں کہ سنہ دو ہزار چودہ کے بعد کلب کے مالی معاملات خراب کیوں ہوئے ؟ اس کا ذمہ دار کو ن کون ہے ؟ ادارے کے ذرائع آمدن کیوں نہ بڑھائے گئے ؟کرپشن ہوئی یا ادارے کو جان بوجھ کسازش کے تحت اس نہج تک پہنچایا گیا ؟ مزید یہ کہ اندھا دھند ممبر شپ کی گئی جس میں مختلف گروپوں کی طرف سے ایک دوسرے پر ، انفرادی طور پر ، پیسے لیکر غیر مستحق لوگوں کو ممبر شپ دینے سے پڑنے والے بوجھ کا کردار کیا تھا ؟ جن لوگوں نے غیر مستحق لوگوں کو کلب کا ممبر بنوایا ان کے خلاف کیا ایکشن ہوا ؟ سکروٹنی کمیٹی نے کتنے لوگوں کی ممبر شپ مشکوک قراردی ؟ ان میں سے اقربا پروری کی بنیاد پر کتنے بچ گئے اور کتنے فارغ ہوئے ؟رشتہ داروں اور دوستوں کو نوازنے کے لئے کلب کی ممبر شپ کیوں دی گئی ؟ ایسے لوگوں کا محاسبہ کیا گیا؟ اسی دوران پنجاب کی بزدار حکومت نے اگرچہ تاخیر سے لیکن فنڈز جاری کردئے ،صرف جاری ہی نہیںکئے بلکہ گرانٹ دوکروڑ روپے سالانہ کردی ہے جس کی پہلی قسط سے سٹاف کو ادا کئے جانے والے پچاس، پچپن لاکھ روپے نے کلب کے ملازمین کے ٹھنڈے چولہوں میں میں زندگی بحال کردی ہے اور اب پریس کلب کا مالی بحران بظاہر ختم ہوگیا ہے (بشرطیکہ گرانٹ کی قسط میں تعطل نہ ہو اور ہم اس گرانٹ کو اللوتللوں میںضائع نہ کردیں )کسی تاخیر کے بغیر انہیں بروقت تنخواہ ادا کرنے کا مستقل انتظام ہوگیا ہے اور ایک سال پہلے کی زیر التوا تنخواہوں کی قسط ور ادائیگی کا شیڈول بھی بن گیا ہے جو برقرارہنے کی صورت میں کلب کا کوئی سٹاف ممبر اپنے بچوں کو سکول سے اٹھانے پر مجبور نہیں ہوگا ، کرایہ ادا نہ کرنے کی صورت میں لینڈ لارڈ اس کا سامان مکان سے باہر پھینکنے کی دھمکی نہیں دے گا۔ہم میڈیا کارکنوں کو ان ملازمین کے مسائل ، مشکلات اور دُکھ اس لئے زیادہ شدت کے ساتھ محسوس ہوتے ہیں کہ ہم خود انہی مسائل کا شکار ہیں ، کسی کے بچے تعلیم ادھوری چھوڑ چکے ہیں ، کسی کے یوٹیلٹی بل ادا نہ ہونے پر کنکشن منقطع ہوچکے ہیں اور کچھ فاقوں سے تنگ شہر چھوڑ کر آبائی علاقوں میں منتقل ہوچکے ہیں لیکن ہمارے مسائل ، دکھ، درد مشکلات کو سمجھنے اور جامع حکمتِ عملی طے کرنے والا کوئی نہیں ، جن کے بارے میں خیال ہے کہ انہیں یہ حکمتِ عملی بنانا چاہئے ، وہ ذرا امورِ دیگر میں زیادہ مصروف دکھائی دیتے ہیں۔۔۔۔

آج جب کلب کے ملازمین ساڑھے چار ماہ کی تنخواہ لینے کے بعد پہلے روز ڈیوٹی پر آئے تو پرانا ادھار چُکا چکے تھے ، لیکن نئے دن کانظام چلانے کے لئے ان کے پاس  پیسے نہیں تھے ، ایک نوجوان نے بتایا کہ ایک ماہ کے وقفے کے بعد آج پہلے دن اس کے بچے بستہ اٹھائے سکول گئے ہیں اور دودھ والے نے آج سے دودھ کی سپلائی بحال کرنے اور کریانے والے نے سودا ادھار دینے کی حامی بھری ہے ، جیب میں اگرچہ پیسے نہیں تھے لیکن اس کے چہرے پر نامیدی اور اداسی نہیں تھی ۔۔۔مجھے لگا کہ وہ کلب کے ملازمین نہیں خود میں ہی ہوں، ایک سے زائد پرچھائیوں کے ساتھ۔۔۔(محمد نوازطاہر)۔۔

How to Write for Imran Junior website
How to Write for Imran Junior website
Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں