تحریر: میم سین بٹ
لاہور پریس کلب کے بزرگ ارکان ہمارے درمیان سے اٹھتے جا رہے ہیں ابھی کچھ دنوں پہلے ارشاد امین اور تاثیر مصطفیٰ آگے پیچھے دنیا سے رخصت ہوگئے ہیں ہم دو عشرے پہلے جب لاہور آئے تھے تو پریس کلب کے ارکان کی کل تعداد صرف 600 کے لگ بھگ تھی جن میں بہت سے بزرگ صحافی بھی شامل تھے اس زمانے میں نجی ٹی وی چینلز ابھی شروع نہیں ہوئے تھے اور اخبارات کی تعداد بھی بہت کم ہوتی تھی پریس کلب کے بزرگ صحافیوں میں سے ظہیر کاشمیری تو ہمارے لاہور آنے سے پہلے ہی انتقال کر چکے تھے اور کلب لائبریری ان کے نام سے منسوب کی جا چکی تھی آغاز میں ہم نے پریس کلب کا ایسوسی ایٹ ممبر بن کر لائبریری میں ہی بیٹھنا شروع کیا تھا جہاں راشد بٹ ، ادریس بٹ ، اختر حیات ، حامد جاوید ، راجہ جلیل حسن اختر اور ایس امجد بھی چند جواں سالہ صحافیوں کے ساتھ محفل جمایا کرتے تھے ان سینئر صحافیوں میں سے اب کوئی بھی حیات نہیں اس زمانے میں راجہ اورنگزیب ، سید تاثیر مصطفٰی ، تنویر زیدی ، میاں فیاض ، رئوف شیخ ، علیم عثمان مرحوم بھی پریس کلب کے استقبالیہ پر یا صحن میں احباب کے ساتھ گپ شپ کیا کرتے تھے ۔
شعروادب کی دنیا سے تعلق رکھنے والے بزرگ صحافی احمد ندیم قاسمی ، انتظار حسین ، منو بھائی ، حمید اختر ، احمد بشیر ، شفقت تنویر مرزا ، انور سدید ، اصغر علی کوثر وڑائچ ، ریاض الرحمان ساغر وغیرہ اس زمانے میں ابھی حیات تھے اور لائف ممبر ہونے کے باوجود پریس کلب نہیں آیا کرتے تھے ، ایف ای چوہدری ، آئی ایچ راشد ، سید انور قدوائی ، عبدالقادر حسن ، علامہ سعید اظہر ، سعادت خیالی ، سہیل ظفر ، عباس اطہر ، مسعود اللہ خان ، اطہر مسعود ، اکبر عالم ، اعجاز رضوی ، تنویر ظہور ، قدرت اللہ چوہدری ،خواجہ فرخ سعید ، نذیر حق ، پرویز حمید ، نذرالسلام خورشید ، جواد نظیر ، اسحاق چوہدری میں سے بھی کچھ بزرگ صحافی سالانہ انتخابات میں ووٹ ڈالنے ہی آیا کرتے تھے اب تو ان میں سے کوئی پریس کلب کے سالانہ انتخابات پر ووٹ ڈالنے بھی نہیں آسکتا اب بھی پریس کلب کے سیکڑوں لائف ممبرز حیات ہونے کے باوجود پریس کلب نہیں آتے جن میں حسین نقی ، سلیم بخاری ، عظیم قریشی ، عطاء الحق قاسمی ، سجاد میر ، عابد تہامی ، خاور نعیم ہاشمی ، نسیم احمد ، سرفراز سید ، علی اصغر عباس ، عبداللہ طارق سہیل اور نوید چوہدری کے نام خاص طور پر قابل ذکر ہیں ، پریس کلب کو رونق بخشنے والے لائف ممبرز میں اب دین محمد درد ، انوار قمر ، حسنین قریشی ، علامہ صدیق اظہر ، طارق کامران ، سعید اختر وغیرہ کے نام ہی لئے جا سکتے ہیں کامریڈ زوار حسین جب سے دور دراز کی جدید بستی کے مکین بنے ہیں اب کبھی کبھار ہی کلب آتے ہیں ۔
سید اسرار بخاری تو لاہور چھوڑ کر کراچی منتقل ہو چکے ہیں البتہ دین محمد درد ، مخدوم بلال ، اقبال جکھڑ ، یاسین مغل ، منیب حق ، ناصر غنی ، رفیق خان ، قیوم زاہد ، ندیم سلیمی ، رضوان حمید ، ازہر منیر ، اعجاز حفیظ خان ، فرمان قریشی ، حامد ریاض ڈوگر ، علمدار حسین ، درخشندہ علمدار ، طاہر اصغر اور انوار قمر تقریبا” روزانہ پریس کلب آتے ہیں ، ہم اور اقبال بخاری تو دن رات رہتے ہی کلب میں ہیں ان کے علاوہ ارشد یاسین ، عظیم نذیر ، ارشد علی ، خالد منہاس ، زوار کامریڈ ، تجمل یوسف ، میاں ندیم اور وکیل انجم بھی گاہے گاہے پریس کلب کا چکر لگاتے رہتے ہیں البتہ جو سینئر ممبرز اخبارات کے ایڈیٹر یا چینل کے ڈائریکٹر نیوز اور بیوروچیف وغیرہ بن جاتے ہیں وہ غالبا” اپنی دفتری مصروفیات کے باعث صرف پریس کلب کے سالانہ انتخابات میں ووٹ ڈالنے ہی آتے ہیں بلکہ بعض تو اس موقع پر بھی دکھائی نہیں دیتے لائف ممبر ازھرمنیر روزانہ پریس کلب آتے رہے ہیں تاہم وہ پریس کلب کے سامنے سڑک پار فٹ پاتھ پر بیٹھتے رہے ہیں چند برسوں سے ان کا وہیں ٹھکانہ رہا ہے اسی جگہ انہوں نے سخت گرمی کے موسم میں آزادی صحافت کیلئے احتجاجی کیمپ لگایا تھا گزشتہ دنوں غالبا” سرد موسم کے باعث وہ شدید علیل ہو گئے تھے ۔
اردو اخبارات کے متعدد معروف کالم نگار بھی لاہور پریس کلب کے لائف ممبر ہیں جن میں عطاءالحق قاسمی ، نذیر ناجی ، حسن نثار ، نجم سیٹھی ، چوھری خادم حسین ، حافظ شفیق الرحمٰن ، حیدر جاوید سید ، علامہ صدیق اظہر ، غلام نبی بھٹ ، منیر احمد منیر ، مصطفٰی کمال پاشا ، علی اصغر عباس ، اکرم شیخ ، ضمیر آفاقی ، نجم ولی خان وغیرہ شامل ہیں ، اخبارات کے ایڈیٹر نیوز ایڈیٹر یا ٹی وی چینل کے ڈائریکٹر نیوز وغیرہ رہنے والے لاہور پریس کلب کے لائف ممبرز میں نذیرناجی ، عثمان یوسف ، سلیم بخاری ، سعید آسی ، عابد تہامی ، خالد کاشمیری ، سجاد میر ، خاور نعیم ہاشمی ، توصیف احمد خان ، اسد اللہ غالب ، ارشاد احمد عارف ، بیدار بخت بٹ ، سرفراز سید ، سہیل وڑائچ ، امجد اقبال ، میاں حبیب ، جمیل چشتی ، آفتاب احمد خان ، ایاز خان ، خالد یزدانی ، ساجد یزدانی ، خالد فاروقی ، خالد نجیب خان ، علی احمد ڈھلوں ، شجاع الدین ، رئیس انصاری ، نوید چوہدری ، دلاور چوہدری ، سعید اختر ، ہمایوں سلیم ، اقبال بخاری ، قدوس منہاس ، ماجد یزدانی ، اقبال جکھڑ ، نواز ڈوگر ، ندیم اشرف ، رانا محمد ارشد کے نام بھی شامل ہیں ۔
پریس کلب کے صدر ، نائب صدر ، سیکرٹری وغیرہ رہنے والوں میں سے ناصر نقوی ، عامر میر ، ہما علی ، بدر منیر چوہدری ، محسن گورایہ ، عامر وقاص چوہدری ، فہیم گوہر بٹ ، عمران یعقوب ، نعمان یاور کے علاوہ سابق ممبر گورننگ باڈی اقبال چوہدری ، نثار حسین ، درخشندہ علمدار اور عمانویل سرفراز وغیرہ بھی اب لائف ممبر ہیں جبکہ لاہور پریس کلب کی خاتون ممبرز میں سے خالدہ یوسف ، امینہ عنبرین ، روزینہ ندیم ، روبی رزاق، شائستہ نزہت ، نزہت فراز ، وسیم فاطمہ ، فاخرہ تحریم ، فرح ہاشمی، فرح وڑائچ ، سعدیہ قریشی ، سعدیہ صلاح الدین ، درخشندہ علمدار ، بشریٰ محمد ، مونا رانا اور عارفہ صبح خان بھی شامل ہیں ۔
پریس کلب میں لائف ممبر کیلئے الگ کمرہ بھی مختص ہے جو پہلے بالائی منزل پر ہوتا تھا جسے کلب کلب لائبریری کو توسیع دینے کیلئے اس میں شامل کر دیا گیا تھا اور اس کی جگہ گراؤنڈ فلور پر کیرم بورڈ والے کمرے کو لائف ممبرز روم بنا دیا گیا تھا بالائی منزل والا کمرہ پہلے رات کے وقت ازھر منیر کے زیراستعمال رہتا تھا اب نچلی منزل والا کمرہ زیادہ تر اقبال بخاری کے زیراستعمال رہتا ہے کیونکہ صرف چند لائف ممبرز ہی پریس کلب آتے ہیں جو کیفے ٹیریا ، صحن ، لابی ، کمپیوٹر روم یا کارڈ روم میں محفل جماتے ہیں کچھ عرصہ پہلے تک سیدامتیاز راشد نے لائف ممبرز کی تنظیم بنا کر کچھ رونق لگائے رکھی تھی ان کی وفات کے بعد سے لائف ممبرز کی تنظیم غیر فعال چلی آرہی تھی اب میاں ندیم لائف ممبرز کا واٹس ایپ گروپ بنا کر تنظیم کو دوبارہ فعال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اس سلسلے میں انہیں ہماری معاونت بھی حاصل ہے ۔
لائف ممبرز کے گروپ میں جلیل الرحمن نے گزشتہ روز تجویز دی کہ پریس کلب کے نائب صدر کا عہدہ لائف ممبرز کیلئے مختص کردینا چاہیے ، منیب حق اور خالد نجیب خان نے بھی اس تجویز کی حمایت کر دی جس پر میاں ندیم نے بتایا کہ لائف ممبرز کو الیکشن لڑنے کی اجازت دینے کیلئے کلب کے آئین میں ترمیم کی ضرورت ہے ، سعیدآسی نے پریس کلب کا جنرل باڈی اجلاس بلا کر لائف ممبرز کو کونسل ممبرز جیسا استحقاق دینے کیلئے کلب آئین کی متعلقہ شقوں میں ترامیم منظور کروانے پر زور دیا ، میاں ندیم نے اسے سنجیدہ معاملہ قرار دیتے ہوئے لائف ممبرز کے حقوق بارے تجاویز تحریری صورت میں پریس کلب کے صدر اور سیکرٹری کو پیش کرنے کا مشورہ دیا ہم نے لکھا کہ لائف ممبرز کو الیکشن لڑنے کی اجازت ملنے سے یہ پلیٹ فارم بھی سیاسی اکھاڑہ بن جائے گا طارق کامران نے ہماری تائید کرتے ہوئے کہا کہ لائف ممبرز کو اپنا احترام برقرار رکھنے کیلئے الیکشن نہیں لڑنا چاہیے ، زوار کامریڈ اور سعید اختر نے بھی ہمارے موقف کی تائید کرتے ہوئے قرار دیا کہ جو لائف ممبرز الیکشن میں حصہ لینا چاہتے ہیں وہ لائف ممبرشپ کی قربانی دے کر انتخابی میدان میں داخل ہو سکتے ہیں ، میاں ندیم نے بھی سعید اختر کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے اقرارکیا کہ لائف ممبرز کے مخصوص نشست پر الیکشن لڑنے سے ان کے وقار میں کمی آئے گی ۔(میم سین بٹ)۔۔