تحریر: محمد نواز طاہر
لاہور پریس کلب کے ہنگامہ خیز اجلاس میں جب سے پنجاب یونین آف جرنلسٹس کے تمام دھڑوں کے عہدیداروں نے مارچ کی تین تاریخ کو لاہور پریس کلب کی لسٹ پر مشترکہ الیکشن لڑنے کا اعلان کیا ہے، ایک ہیجان سا پیدا ہوگیا ہے ، لگتا ہے کہ یہ فیصلہ صحافیوں کے سوا کسی کو بھایا نہیں ۔۔کچھ صحافی حضرات بھی اس فیصلے پر غیر یقینی کا شکار دکھائی دیتے ہیں حالانکہ ایسا نہیں ہونا چاہئے اور بہتری کی امید رکھنا چاہئے البتہ اپنے سوالوں کے جواب وہ اپنے قائدین سے لے سکتے ہیں یا پھر اپنی یونین کی ایگزیکٹو کونسل ( جو ابھی تحلیل نہیں ہوئیں اور اپنا وجود رکھتی ہیں ) سے یا پھر جنرل کونسل بلا کر ابہام دور کرسکتے ہیں ۔ انہیں اپنے تحفظات کا جواب مل جائے گا ۔
ایک بات البتہ واضح ہے کہ پریس کلب کی موجودہ لسٹ پر یونین کا الیکشن کرانے کی صورت میں کچھ مسائل ضرور پیش آسکتے ہیں جن کا بروقت حل نکالنا ہوگا جن میں سے پہلا اہم مسئلہ پریس کلب کی لسٹ ہے جس کے بارے میں ا لیکشن کے فوری بعد ہی کہا گیا تھا کہ اس کی اسکروٹنی ہوگی یعنی یہ لسٹ درست نہ ہونے کی بات کی گئی تھی ، اگر یہ لسٹ درست نہیں تو پھر اس پر موثر اور شفاف الیکشن کیسے ممکن ہوگا ؟ دوسری بات یہ ہے کہ پی ایف یو جے کا انیس سوپچاس میں بنایا جانے والا آئین ہی تمام گروپوں کا آئین ہے جس کے تحت صحافت کے سوا کوئی دوسرا پیشہ ور مثلاً وکالت اور انجینئرنگ سے وابستہ ( لائسنس یافتہ) یا سرکاری ملازم اور کسی بھی سیاسی اور مذہبی تنظیم کا عہدیدار پی ایف یو جے ( پی یو جے) کا کونسل ممبر نہیں ہوسکتا اور ووٹ کا حق نہیں رکھتا ۔ یہ حد اشاعتی و نشریاتی ادارے کا لائسنس یا ڈیکلریشن رکھنے والے پر بھی عائد ہوتی ہے جبکہ پریس کلب کی موجودہ لسٹ میں ایسے کچھ نام شامل ہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک مسئلہ اور ہے پریس کلب کی موجودہ لسٹ میں جن کے نام شامل نہیں جبکہ وہ کسی نہ کسی گروپ ( یو جے) کے عہدیدار کی حیثیت سے کام کرتے رہے ہیں ، ان کے ووٹ کا حق کہاں فعال کرتا ہے ؟ ۔ ان مسائل کے حل کیلئے لازم ہے کہ جذباتی اور انقلابی قدم کے ساتھ ایک اہم قدم یہ اٹھایا جائے کہ تمام دھڑے اپنے اپنی تنظیم کی ایگزیکٹو کونسل میں اس کا فارمولہ بنائیں اور پھر اپنی جنرل کونسل سے اس کی منظوری بھی حاصل کریں ۔ یہ غیر معمولی جنرل کونسل ہوگی جس میں یہ فیصلہ بھی کرنا ہوگا کہ مشترکہ الیکشن میں حصہ لینے کی صورت میں ایگزیکٹو کونسل اور جنرل کونسل از خود ہی تحلیل ہوجائے گی اور اس کی جنرل کونسل انتخابی فہرست والے اراکین پر مشتمل ہوگی جو آئین کے اندر رہتے ہوئے تمام فیصلوں کی مجاز اور بااختیار ہوگی۔
چونکہ مارچ کے آخری ہفتے میں پی ایف یو جے کے ایک دھڑے( جو میری نظر میں اکثریتی ہے ) کی مرکزی تنظیم کے الیکشن ہونے ہیں ، اسلئے تین مارچ کی اعلان کردہ تاریخ پر ہر صورت پی یو جے کے الیکشن ناگزیر ہیں کیونکہ نومنتخب تنظیم نے اکثریتی رائے کے ساتھ فیصلہ کرنا ہے کہ اس نے پی ایف یو جے کے کون سے گروپ کا حصہ بننا ہے ، ضروری نہیں کہ یہ فیصلہ ایک لمحے میں ہوجائے ، یہ معاملہ طویل بھی ہوسکتا ہے ، اس طوالت کے باعث اگر مارچ کے آواخر میں ہونے والے الیکشن کے بعد اسی گروپ کا حصہ بننے کا ہی فیصلہ کیا جائے تو انتخابی عمل میں اہم کردار کے حامل مندوبین کا ووٹ کا حق ضائع ہوجائے گا اور یہ غیر دانشمندانہ عمل ہوگا، دانشمندی تو یہی ہے کہ تین مارچ کے الیکشن کیلئے فوری طور پر ضروری امور نمٹائے جائیں ، انتخابی فہرست کا مسئلہ حل کرکے لسٹ الیکشن کمیٹی کے سپرد کی جائے تاکہ الیکشن کمیٹی اس پر شیڈول جاری کرے ، چونکہ مشترکہ لسٹ پر الیکشن غیر معمولی اور تاریخ اہمیت کا حامل ہو گا اور اس میں تمام دھڑے اپنے پہلے سے موجود د مرکزی تنظیم کا حصہ بننے کیلئے ہر صورت میں الیکشن جیتنے کی کوشش کریں گے اور اس لئے اس الیکشن کی انتخابی مہم بھی اسی جذبے سے چلائی جائے گی اور اس کی انتخابی مہم کیلئے وقت بھی زیادہ درکار ہوگا ۔
کسی بھی وجہ سے اگر الیکشن تین مارچ سے آگے جاتا ہے تو اس نیک نیت ، پر خلوص ، جذباتی اور انقلابی اعلان پر انگشت نمائی کا جواز پیدا ہوگا جس سے ہر صورت بچنا ہی اجتماعی مفاد میں ہے ۔مشترکہ لسٹ پر الیکشن کرانے کے اعلان پر تحفظات رکھنے والوں کیلئے یہی مشورہ ہے کہ وہ تحفظات اور خدشات سے اپنا دماغ تھکانے کےبجائے انتخابی عمل قابلِ قبول بنانے پر زیادہ توجہ دیں تاکہ ایسے نمائندے منتخب ہوسکیں جو مرکزی یونین کو متحد کرنے کیلئے بھی اپنا بھرپور، جاندارکردار ادا کریں اور ویج بورڈ کی کارروائی پایہ تکمیل تک پہنچانے میں بھی موثر کردار اداکریں ۔ یہاں یہ بات ضرور ذہن میں رکھنی چاہئے کہ اس بار میڈیا مالکان ویج بورڈ کی کارروائی کو خود کارکنوں کے ہاتھوں سبوتاژ کرنے کے خواب دیکھ رہے ہیں ، ایک بار اگر ایسی کوئی منفی کوشش ( خدا نہ کرے)کامیاب ہوگئی تو ویج بورڈ کا مستقبل بھی خطرے میں پڑ جائے گا ۔
یہاں لاہور پریس کلب کے سابق صدر اعظم چودھری کی کوششوں کا ذکر کرنا بھی ضروری ہوگا جنہوں نے مشترکہ ایکشن کمیٹی بنا کر تمام تنظیموں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے کی پہل کی گو کہ اس کا سہرا جبراً پریس کلب کے موجودہ سینئر نائب صدر ذوالفقار علی مہتو لیتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ ایکشن کمیٹی انہوں نے بنوائی جو کہ حقائق کے برعکس ہے ، اس طرح کے دعوے تنظیموں کی خرابی اور بربادی کا باعث بننے کے ساتھ ساتھ اتحاد میں نفاق کی بنیادبنتے ہیں ، ذمہ دار منتخب عہدہ رکھنے والوں کو اس طرح کے غلط دعووں سے گریز کرنا چاہئے اور اگر وہ گریز نہیں کرتے تو اس کا یہ مطلب ہوسکتا ہے کہ شائد وہ اتحاد کے بجائے اتحاد کے نام پر نفاق کی بیج بونا چاہتے ہیں ۔ ایکشن کمیٹی لاہور پریس کلب ہی کے نثار عثمانی ہال میں تمام گروپوں عہدیداروں کے ساتھ ساتھ بہت سے سینئر اور میرے جیسے جونیئر لوگوں کے مشترکہ اجلاس میں بنائی گئی تھی جبکہ اس سے پہلے پریس کلب کے صدر روم میں تمام گروپوں کے مشترکہ اجلاس کی تجویز پر دوگھنٹے سے زائد بحث کی گئی ، اس بحث میں پروگریسو گروپ سے زیادہ جرنلسٹ گروپ کے لوگ موجود تھے حالانکہ جرنلسٹ گروپ کے لوگ ان دنوں صدر اور سیکرٹری روم میں جانے سے گریز کیا کرتے تھے ۔ اس میٹنگ کی کچھ، کچھ تفصیل میں نے ’فیس بک‘ پر (تیرہ اکتوبر دو ہزار اٹھارہ ) لکھی تھی ۔ جس وقت مشترکہ ایکشن کمیٹی بنائی گئی تھی تب یونین کے ایسے گروپوں کو بھی یکساں نمائندگی دی گئی جن کو صحافتی برادری میں باقاعدہ تسلیم نہیں کیا جاتا تھا مگر کمیونٹی کے مفاد میں اور ایکشن کمیٹی کا کردار موثر بنانے کیلئے ان گروپوں کو باقاعدہ تسلیم بھی کیا گیا اور یکساں نمائندگی بھی دی گئی ، لہٰذا تاریخ اور حقائق درست رکھنے کیلئے یہ ضروری ہے کہ یہاں پر لاہور پریس کلب کے صدر ارشد انصاری اور سابق صدر اعظم چودھری کا جو کردار بنتا ہے اس کا ذکر کیا جائے ، ان دنوں اعظم چودھری کے دورِ صدارت میں بننے والی ایکشن کمیٹی کو آگے بڑھارہے ہیں بلکہ اس سے آگے بڑھتے ہوئے تمام گروپوں کو متحد کرکے ایک ہی لسٹ پر الیکشن کروانے کے اعلان تک پہنچے ہیں امید رکھتے ہیں کہ وہ اس اعلان پر عملدرآمد بھی کروائیں گے ۔
یہ پیرا لکھنے کا مقصد صرف یہ باور کرانا ہے کہ مشترکہ لسٹ پر الیکشن کروانے کا فیصلہ ایک دن میں نہیں ہوا ، یہ مرحلہ وار آگے بڑھا ہے ، اس میں جو کوئی بھی محض کریڈٹ لینے کیلئے غلط بیانی کرے گا ، اسے پہچان لیا جائے گا اور جھوٹ کے پیچھے چھپے ہوئے درپردہ ( اگر کوئی مذموم عزائم رکھتاہوگا) عزائم سامنے آجائیں گے ۔ ماضی میں بھی صرف جھوٹ اور منافقت کی بناء پر رشید صدیقی اور ضیاء الاسلام انصاری جیسے لوگ تقسیم کا باعث بنے تھے ، اب اگر دوسری بلکہ دوسری، تیسری نسل میں جا کر اتحاد ہورہا ہے تو ماضی کی منافقت ، ذاتی مفادات ، جھوٹ اور کرداروں کا ذکر نہ کرنا ہی مناسب ہے ، ان مصیبتوں سے نجات کیلئے بڑا طویل سفر کرنا پڑا ہے ۔اسی دوران یونین میں یونین ازم ختم ہوچکا اور بہت سی دوسری برائیاں در آئی ہیں ، یہی وجہ ہے کہ میں ان سینئر ساتھیون سے بھی ملتمس ہوں کہ ماضی میں جن سینئرز سے جو غلطیاں سرزد ہوئیں ، ان میں سے پچانوے فیصد سے زائد تو اس دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں ، مرحومین کیلئے جب دعائے مغفرت کی جاتی ہے تو ان کی ماضی کی دانستہ اور نادانستہ غلطیاں بھی معاف کی جاتی ہیں ، اس لئے ان کو اب نظر انداز کرنا ہی دانشمندی ہوگی ۔کمیونٹی کے اتحاد کی ہر کوشش ،پوری سچائی اور دیانتداری سے آگے بڑھانے میں ہر کسی کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا ۔(محمدنوازطاہر)۔۔
(عمران جونیئر ڈاٹ کام کا اس تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں،علی عمران جونیئر)