تحریر: امجد عثمانی۔۔
لاہور پریس کلب کا “سیاسی میلہ”انجام بخیر ہوا۔۔دل باغ باغ ہے کہ مدت بعد یہ ایک خوب صورت سالانہ”صحافتی فیسٹیول” ٹھہرا۔۔اس سال کے الیکشن میں خاکسار بھی جرنلسٹس پروگریسو الائنس کی طرف سے نائب صدر کا امیدوار تھا۔۔اس پینل میں جناب ارشد انصاری صدر۔جناب ضیا اللہ خان نیازی سنئیر نائب صدر۔۔جناب زاہد عابد سیکرٹری۔۔جناب نواز سالک خزانچی اور فرخ عطا بٹ جوائنٹ سیکرٹری کے امیدوار تھے۔۔اللہ کریم نے کرم فرمایا اور ہم مجموعی طور پر فتح یاب قرار پائے۔۔لاہور پریس کلب کے اس الیکشن میں کچھ نئی روایات نے صحافی برادری کو نہال کر دیا۔۔پہلی اچھی بات یہ کہ پنجاب کے صحافی وزیر اعلی جناب محسن نقوی کو شاباش کہ انہوں نے کئی سال بعد صحافیوں کے الیکشن سے وزیر اعلی ہائوس کی “غیر ضروری مداخلت”نکال باہر پھینک کر لیول پلیئنگ فیلڈ دی۔۔شومئی قسمت کہ برس ہا برس سے یہ “بیساکھی کلچر”چلا آرہا تھا کہ ہمارے “صحافی قائدین” دسمبر میں بھاگے بھاگے “سی ایم ہائوس”جاتے اور کوئی “لالی پاپ” لا کر بیچنا شروع کر دیتے۔۔جناب محسن نقوی نے اس بار کسی بھی گروپ کو وزیر اعلی ہائوس سے منسوب”سبز باغ ” دکھانے کی اجازت دینے سے دو ٹوک انکار کرکے اپنے منصب کی لاج رکھ لی ۔۔وہ اپنی اس غیر جانب داری سے اور معتبر ہو گئے اور ان کے اس اقدام سے کلب الیکشن فیسٹیول بن گیا۔۔۔دوسری بات یہ کہ جناب محسن نقوی کے ساتھ ساتھ جناب نوید چودھری۔۔جناب سلیم بخاری۔۔جناب زاہد چودھری اور جناب عامر رضا پر مشتمل سٹی فارٹی میڈیا گروپ کی نیوز مینجمنٹ نے بھی ایک اور اچھی روایت قائم کی۔۔اور وہ یہ کہ انہوں نے اس سال اپنے میڈیا گروپ سے کوئی امیدوار میدان میں نہ اتارا تاکہ کسی ایک پینل کی طرف جھکائو کا تاثر نہ جائے۔۔۔یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ان کی مینجمنٹ نے بھی بڑی بصیرت سے ان کے منصب کو داغدار ہونے سے بچالیا۔۔میں سمجھتا ہوں کہ یہ بہت غیر معمولی فیصلے تھے جس پر جناب محسن نقوی اور ان کے میڈیا گروپ کے” اکابرین” خراج تحسین کے مستحق ہیں۔۔میں الیکشن مہم کے دوران ہی یہ سطور لکھنا چاہتا تھا لیکن محتاط ہو گیا کہ میں نائب صدر کا امیدوار تھا اور کہیں یار لوگ” اپنے مطلب” کا “مطلب” نکال کر اودھم ہی نہ مچادیں۔۔مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ جناب محسن نقوی بھلے آدمی ہیں۔۔خاکسار کو دو ہزار تیرہ میں ان کے میڈیا ہائوس میں کچھ عرصہ کام کرنے کا موقع بھی ملا…..مجھے یاد ہے کہ روزنامہ سٹی 42کے گروپ ایڈیٹر جناب نوید چودھری نے اپنے روم میں میرا تعارف کرایا تو وہ بڑے تپاک سے ملے اور کھڑے کھڑے ہی کہا کہ عثمانی صاحب خوش آمدید۔۔۔کام شروع کریں۔۔بس یہی انٹرویو تھا۔۔میرا خیال ہے کہ ان کی اسی” ادا”پر ان کے کارکن ان پر “فدا” ہیں۔۔اس الیکشن کا تیسرا اہم پہلو یہ کہ لاہور کے صحافیوں نے “ادارہ جاتی جبر” کو مسترد کردیا اور اپنے ضمیر کی آواز پر ووٹ دیا۔۔انتخابی مہم کے دوران ایک دو اداروں میں خاموش کھڑے دوستوں کے چہرے پیغام دے رہے تھے کہ ڈونٹ وری۔۔چوبیس دسمبر کو ووٹ کی صورت “حال دل” کہیں گے اور پھر انہوں خوب “دل کی بات” کہی۔۔افسوس صد افسوس کہ اس الیکشن میں کئی نفرت انگیز کارڈز بھی کھیلے گئے لیکن خوشی کی بات یہ کہ لاہور کے صحافیوں نے” ڈرٹی سیاست” کے “بخیے” اڑادیے۔۔بات ہورہی تھی جناب محسن نقوی اور ان کے میڈیا گروپ کے شاندار کردار کی ،تو میں نے انتخابی مہم کے دوران بھی جناب سلیم بخاری کو ان کے دفتر بیٹھ کر ان قابل تقلید روایات پر خراج تحسین پیش کیا۔۔۔یہ سطور مجھ پر جناب محسن نقوی اور جناب سلیم بخاری کا قرض بھی تھیں کہ تین سال پہلے میں نے ان کو ایک “انتخابی ایشو” پر آڑے ہاتھوں لیا تھا۔۔میں نے” بخاری صاحب۔۔جناب خالد چودھری کو فالو کریں” کے نام سے ایک سخت بلاگ لکھا تھا جس میں انہیں دلائل مگر ادب کے ساتھ چیئرمین الیکشن کمیٹی سے دستبردار ہونے مشورہ دیا تھا۔۔۔انہوں نے بھی بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے وہ مشورہ مان لیا تھا جس پر میں نے “سلیم بخاری صاحب کو سلیوٹ” کے عنوان سے ایک اور بلاگ میں ان کو دل کی اتھاہ گہرائیوں سے خراج تحسین بھی پیش کیا تھا۔۔بہر کیف لاہور پریس کلب کا ایک اور الیکشن تمام ہوا۔۔ اچھی روایات پر جناب محسن نقوی کو شاباش۔۔۔۔ان کے میڈیا گروپ کی “نیوز مینجمنٹ” کو شاباش۔۔(امجد عثمانی)۔۔