تحریر: محمد نواز طاہر۔۔
پاکستان کے صحافیوں میں اشاعتی و نشرایاتی اداروں جنگ جیو گروپ کے جنگ اور جیو گروپ کے سربراہ میرشکیل الرحمان کی زمین کی الاٹمنٹ میں مبینہ بے قاعدگی کے الزام میں گرفتاری کے بعد اس گرفتاری کو صحافت کی آزادی پر حملہ قراردینے یا ایک قانونی کارروائی قراردینے پر صحافیوں میں اختلافِ رائے روز بروز بڑھ رہا ہے جو صھاٖیوں میں مزید تقسیم کا باعث بن رہا ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ شدت پسندی میں بھی اضافہ ہورہا ہئے اور ڈائیلاگ کو نظر انداز کیا جارہا ہے۔ ایک طرف میر کی گرفتاری کو صحافت کی آزادی پر حملہ قرار نہ دینے والوں کو پِن پوائنٹ کیا جارہا تو دوسری جانب میر شکیل الرحمان یا میر فیملی کے کسی ممبر کی پریس کلب میں آمد پر وہ سلوک کرنے کی پلانگ کی اطلاعات ہیں جو صحافیوں کا خاصا، تعلیم اور تاریخ نہیں رہی کہ کسی کو پریس کلب یا یونین کے دفتر میں کسی حاجت مند کو جوتا مارا جائے، خدانخواستہ کسی ناہنجار نے جذبات میں آکر ایسا کیا تو یہ صحافیوں اور میڈیا کارکنوں کے وقار پر سیاہ دھبہ ہوگا، اس لئے اس سے گریز اور ایسی سوچ کی حوصلہ شکنی کرناہوگی۔،
میر شکیل الرحمان کے لئے لاہور پریس کلب نے ہمیشہ اپنے’گھر‘ اور اپنے’دفتر‘ جبکہ کارکنوں نے ذاتی فوج جیسا کردار ادا کیا ہے گو کہ میر شکیل الرحمان نے ہمیشہ اپنے کردار سے کارکنوں کی حوصلہ شکنی اور ان کا معاشی قتل کیا ہے، تاریخ اس کی اور خود میر شکیل الرحمان ہی بڑے گواہ ہیں۔ اس بار لاہور پریس کلب میرشکیل الرحمان کی حمایت کے لئے کیمپ نہیں بن سکا جس کی بنیادی وجہ میر شکیل الرحمان کی اپنی وعدہ خلاف شخصیت اور کارکنوں کا معاشی قتلِ عام ہے، اور میر کی حمایت کرنے والوں کے سامنے وہ کارکن کھڑے ہیں جو جنہیں میر شکیل نے یک جنبشِ قلم دفتر سے باہر نکال دیا تھا، دوسری بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے جو میر شکیل الرحمان اور اس کے لاہور پریس کلب میں آنسو بہاتے ہوئے کیے جانے وعدوں کی خلاف ورزی اور ایک طرح کی فرعونیت ہے۔
لاہور پریس کلب کو میرشکیل حمایت کیمپ بنانے میں ناکامی پر میر شکیل کے حامیوں کی شدید غصہ اور ملال ہے اور ساتھ ساتھ ہی ان کی میر سے وفاداری پر بھی سوالیہ نشان لگ چکا ہے، بیشتر کو اپنا مستقبل بھی تاریک نظر آنے لگا ہے، اب تازہ صورتحال یہ ہے کہ پریس کلب کو کرورونا مسائل کے باعث لاک ڈاؤن کرنے کی تجاویز دلانا شروع کردی گئی ہیں تاکہ یہ ظاہرکیا جاسکے کہ لاہور پریس کلب کو میر کیمپ بنایا تو جاسکتا تھا یا بنایا جانے والا تھا لیکن کرونا کے باعث بند کرنا پڑا ہے اؤور احتجاجی کیمپ جنگ، جیو کے دفاتر کے باہر لگایا گیا ہے، ظاہر ہے کہ کرونا ایک سنجیدہ ایشو ہے جس پر کسی قسم کی سیاست بہت بڑی حماقت اور عوام دشمنی ہے، خواہ کوئی سیاسی جماعت کرے یا انفرادی کوشش ہو۔ پریس کلب میں لاک ڈاؤن کی کوشش کی حوصلہ شکنی کے لئے بھی پلاننگ جاری ہے جس کے تحت پہلا اصول یہ وضع کیا گیا ہے کہ جب میڈیا ورکرز فیلڈ میں میڈیا مالکان کی طرف سے حفاظتی انتظامات بشمول لائف سیکیورٹی فراہم نہیں کی جارہی اور ادارے بھی کام کررہے ہیں تو پریس کلب کو بند کیسے کیا جاسکتا ہے؟ ادراس اشاعتی و نشریاتی ادارے بند کردیے جائیں تو پریس کلب تب بھی بند نہیں کیا جاسکتا۔ ضروری امر یہ ہے کہ یونینیں اور صحافیوں کے نمائندے مل بیٹھ کر جامع حکمت عملی مرتب کریں کسی ایک مالک یا مالکان کی وفاداری یا ریاستی وعمل کی حمایت و مخالفت کے بجائے اجتماعی سوچ کے تحت فیصلے اور عملی اقدامات کریں، کورونا جنگ لڑنے والے کارکنوں کو جنگی بچاؤ
اور انشورنس کے اقدامات اٹھانا چاہئیں، باہمی اختلافِ رائے کا احترام کرنا چا ہیئے، لیکن اگر ایسا نہیں ہوتا تو خدانخواستہ کارکنوں میں بہت بڑے مسائل پیدا ہونے جارہے ہیں اور ذاتی دشمنیوں نے جنم لینا شروع کردیا ہے، کیا اس زاتی دشمنی سے میر شکیل کو فائدہ ہے یا کارکنوں کو نقصان ہے؟ میں محسوس کررہا ہوں کہ کارکنوں کے کریڈینشل داؤ پر لگ چکے ہیں اور مفاد پرستی غالب آچکی ہے اور میر کے زیادہ تر حامیوں کی تعداد ان لوگوں کی ہے جنہیں پنجاب میں ’کماؤ پوت‘ کہا جاتا ہے، یہ کماؤ پوت نظریاتی لوگوں پر بھی حاوی ہونے کی کوشش کررہے ہیں، اور کسی نہ کسی حد تک کامیاب بھی دکھائی دیتے ہیں، میں خوف محسوس کررہا ہوں کہ خدانخواستہ میر شکیل الرحمان،ان کی حمایت یا مخالفت کے معاملے پر ذاتی دشمنیوں کو ہوا مل رہی ہے اور میر شکیل یا اس کی فیملی کے کسی ممبر پر کسی بھی پریس کلب میں کو ئی پاپوش سے توہین کا مرتکب نہ ہو جائے۔ یہ بہت بڑا المیہ ہوگا اور اس سے بچنا کارکنوں اور قائدین کی اولین ذمہ داری ہے۔ اگر انہوں نے یہ کردار اددا نہ کیا تو وقت کے سامنے جوابدہ رہیں گے۔۔(محمد نوازطاہر)۔۔
(محمد نوازطاہر لاہورکے باخبر صحافی اور صحافتی تنظیموں کے عہدیدار رہے ہیں، ان کی تحریر سے عمران جونیئر ڈاٹ کام اور اس کی پالیسی کا متفق ہونا ضروری نہیں۔۔علی عمران جونیئر)۔۔