lahore press club election

لاہور کے صحافی اور نگران حکومت۔۔

تحریر: میم سین بٹ

لاہور کے کرایہ پر مقیم بے گھر ادیبوں ، شاعروں اور صحافیوں کیلئے پہلا رہائشی منصوبہ سابق وزیراعلیٰ پنجاب حنیف رامے نے شروع کیا تھا اور لاہور کے علامہ اقبال ٹاؤن میں جہانزیب بلاک اور ستلج بلاک میں قلمکاروں کو کم قیمت پر پلاٹس دیئے تھے جن پر انہوں نے گھر تعمیر کر کے کرایہ کے مکانوں سے نجات حاصل کرلی تھی بعد ازاں سابق وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہٰی نے لاہور ، راولپنڈی ، ملتان ، فیصل آباد اور گجرات میں صحافی کالونیاں بناکر پریس کلب کے ممبرصحافیوں کو صرف اقساط پرڈویلپمنٹ چارجز وصول کرکے پلاٹ فراہم کئے تھے لاہور کی صحافی کالونی کے اے بلاک تا ای بلاک میں صحافیوں کو چوہدری پرویز الہیٰ نے پلاٹ الاٹ کئے تھے جبکہ ایف بلاک کیلئے اراضی بعدازاں وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کے دور میں خریدی گئی تھی اسی دور میں ایف بلاک کی چار دیواری بھی کردی گئی تھی اور سیوریج پائپ لائن بھی بچھا دی گئی تھی ان دنوں بھی ارشد انصاری لاہور پریس کلب کے صدر تھے بعدازاں اعظم چوہدری کے دور میں سڑکیں بھی بن گئی تھیں اور بجلی کے کھمبے بھی لگنا شروع ہوگئے تھے ۔

     ایف بلاک میں پلاٹ کے ڈویلپمنٹ چارجز ساڑھے 4 لاکھ روپے ماہانہ سوا 9 ہزار روپے قسط کی صورت میں وصول کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا لیکن بعدازاں وزیرعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے دور میں ڈویلپمنٹ چارجز کی رقم بڑھا کر 7 لاکھ روپے اور ماہانہ قسط 18ہزار روپے کر دی گئی تھی پھر چوہدری پرویزالہٰی نے دوسری مرتبہ وزیراعلی بن کر ایف بلاک میں بجلی کی فراہمی کیلئے کھمبے لگوانا شروع کئے ہی تھے کہ عمران خان نے ان سے پنجاب اسمبلی اور صوبائی حکومت ہی تڑوا دی تھی ، محسن نقوی کے نگران ویراعلیٰ پنجاب بننے سے ایف بلاک میں بجلی کی فراہمی کا منصوبہ رک گیا تھا پہلے کہا گیا کہ پریس کلب کے سالانہ انتخابات بعد کام شروع ہوگا لیکن اب نگران حکومت نے فیز ٹو کے صحافیوں کو لاہور پریس کلب کی فہرست پر پنجاب جرنلسٹس ہاؤسنگ فاؤنڈیشن کے بجائے خود روڈا کے ذریعے پلاٹ دینے کا اعلان کر دیا اور نیوز روم کے صحافیوں کو فہرست سے ہی خارج کر دیا ہے جس پر لاہور کے صحافیوں میں شدید ردعمل پیدا ہوا اور پریس کلب میں ان کا احتجاج مسلسل جاری ہے ۔

    نگران وزیر وزیراعلی اور صوبائی وزیراطلاعات دونوں صحافی رہے ہیں بلکہ عامر میر تو لاہور پریس کلب کے صدر اور سیکرٹری بھی رہ چکے ہیں اور صحافی کالونی ہربنس پورہ میں پلاٹ بھی حاصل کرچکے ہیں ان کے والد پروفیسر وارث میر پنجاب یونیورسٹی شعبہ صحافت کے سربراہ رہے تھے وہ روزنامہ نوائے وقت اور بعدازاں روزنامہ جنگ میں کالم بھی لکھتے رہے تھے ان کے دوسرے صاحبزادے حامد میر بھی صحافی ، کالم نگار اور ٹی وی میزبان ہیں پروفیسر وارث میر اگر زندہ ہوتے تو انہیں اپنے صوبائی وزیر اطلاعات صاحبزادے عامرمیر کی جانب سے اخبارات کے نیوز روم ، میگزین اور ایڈیٹوریل کے شعبوں سے تعلق رکھنے والے عملے کو صحافی ماننے سے انکار پر بہت دکھ ہوتا انہوں نے تو پنجاب یونیورسٹی شعبہ صحافت میں اپنے شاگرد طلبہ و طالبات کو کبھی یہ نہیں کہا ہوگا کہ اخبارات کے نیوز ڈیسک ، میگزین اور ایڈیٹوریل کا سٹاف صحافی نہیں ہوتا پنجاب یونیورسٹی شعبہ ابلاغیات کے فارغ التحصیل صحافی ہی اس وقت اخبارات اور چینلز کے اہم عہدوں پر فائز ہیں نیوز روم میں بطور سب ایڈیٹر عملی صحافت کا آغاز کرنے والے متعدد صحافی اب مختلف اخبارات کے ایڈیٹر ہیں جن میں بیدار بخت بٹ (جنگ) امجد اقبال (جناح )ایاز خان (ایکسپریس )ایثار رانا ( پاکستان )ندیم نثار (دنیا ) اور اشرف سہیل ( مشرق ) بھی شامل ہیں روزنامہ خبریں کے سابق ایگزیکٹو ایڈیٹر عظیم نذیر بلکہ نگران وزیراعلیٰ محسن نقوی کے اپنے میڈیا گروپ کے ایڈیٹر نویدچوہدری بھی نیوز روم سے ہی تعلق رکھنے والے سینئر صحافی ہیں ۔

    محسن نقوی اور عامر میر انگریزی صحافت سے منسلک رہے ہیں اور بعض ممالک میں رپورٹر اور سب ایڈیٹر کے فرائض ایک ہی صحافی سرانجام دیتا ہے لہذا یہ دونوں بھی یہی چاہتے ہوں گے کہ پاکستان میں بھی رپورٹرز ہی سب ایڈیٹر کے فرائض سرانجام دیں لیکن بعض ممالک میں رپورٹر کو بعدازاں تجربہ کار ہوجانے پر فیلڈ سے ہٹا کر نیوز ڈیسک پر بٹھا دیا جاتا ہے ہم خود بھی پہلے ایک عشرہ تک رپورٹر رہنے کے بعد دو عشرے تک نیوز ڈیسک پر فرائض انجام دیتے رہے ہیں اور نیوز روم میں بیٹھنے پر ہی ہمیں اصل صحافت کا پتا چلا تھا پاکستان میں رپورٹر ، ایڈیٹر اور فوٹو گرافر تینوں ہی الگ الگ صحافتی فرائض سر انجام دیتے ہیں اور تینوں کو صحافی قرار دے کر پریس کلب اور یونین کی رکنیت دی جاتی ہے اور تینوں ہی پریس کلب اور یونین کے انتخابات میں حصہ لے کر عہدیدار بنتے ہیں پریس کلب کے اب تک بننے والے تمام صدور رپورٹر رہے ہیں موجودہ صدر ارشد انصاری بھی رپورٹر ہیں تاہم معظم فخر ، میاں عابد ،  عبدالمجید ساجد ، مجتبیٰ باجوہ ، ظہیر احمد بابر ، فرزانہ چوہدری ، زاہد گوگی ، دین محمد درد ، تمثیلہ چشتی ، درخشندہ علمدار ، عنبرین فاطمہ ، رانا اکرام ، رائو نفاست جمیل ، بابا مزمل گجر ، رضوان خالد ، محبوب چوہدری ، طارق مغل ، شیرافضل بٹ ، قیصر رشید بٹ ، محسن نسیم ، رضوان شمسی ، رضا محمد سمیت اخبارات کے نیوز ڈیسک اور میگزین کے شعبوں سے تعلق رکھنے والے متعدد صحافی بھی پریس کلب کے نائب صدر سیکرٹری ، جوائنٹ سیکرٹری ، خزانچی اور ممبر گورننگ باڈی رہ چکے ہیں اس وقت بھی ممبرز گورننگ باڈی شہباز چوہدری ، عالیہ خان اور سید بدر سعید کا تعلق میگزین کے شعبے سے ہے بلکہ لاہور پریس کلب کے موجودہ نائب صدر امجد عثمانی بھی نیوز روم سے تعلق رکھنے والے صحافی ہیں علامہ امجد عثمانی نے حالیہ عام انتخابات میں نومنتخب صدر اور سیکرٹری دونوں سے زیادہ ووٹ حاصل کئے ہیں لاہور پریس کلب اور یونین کے ممبرز کی زیادہ تعداد نیوز ڈیسک میگزین اور ایڈیٹوریل کے شعبوں سے ہی تعلق رکھتی ہے لیکن رپورٹرز چونکہ فیلڈ کی ڈیوٹی کرتے ہیں اور سرکاری وغیرسرکاری اداروں کے ساتھ رابطے میں رہتے ہیں لہٰذا کلب اور کالونی کے مسائل حل کروا سکتے ہیں اس لئے پریس کلب اور یونین کے عہدیدار بنانے کیلئے انہیں ترجیح دی جاتی ہے ۔

     ہمیں صحافی کالونی ایف بلاک میں پلاٹ مل چکا ہے لیکن اب فیز ٹو کے نیوز روم سے تعلق رکھنے والے صحافیوں کو پلاٹ سے محروم کرنے پر ہمیں بے حد دکھ پہنچا ہے اور ہم ان کے ساتھ اظہار یکجہتی کیلئے  پریس کلب کے تحت ہونے والے احتجاج میں شریک ہو رہے ہیں لاہور پریس کلب کے صدر ارشد انصاری اپنے ممبرز کو حق دلوانے کیلئے ڈٹ کر کھڑے ہو گئے ہیں اور ان کا نگران صوبائی حکومت سے مطالبہ درست ہے کہ ماضی کی طرح پنجاب  جرنلسٹس ہاؤسنگ فاؤنڈیشن کے ذریعے لاہور پریس کلب کے فیز ٹو سے تعلق رکھنے والے تمام کونسل ممبرز کو صرف قسطوں میں ڈویلپمنٹ چارجز وصول کر کے پلاٹ دیئے جائیں پنجاب اسمبلی کا منظور شدہ ایکٹ بھی یہی کہتا ہے پنجاب جرنلسٹس ہاؤسنگ فاؤنڈیشن کے علاوہ کسی دوسرے ادارے کے ذریعے صحافیوں کو پلاٹ دینا قوانین کے خلاف ورزی ہوگی اعلیٰ عدلیہ بھی غالبا چند سال پہلے حکمرانوں کی جانب سے براہ راست پلاٹس کی الاٹمنٹ پر پابندی عائد کر چکی ہے لہذا قانونی طور پر صحافیوں کو بھی صرف پنجاب جرنلسٹس ہاؤسنگ فاؤنڈیشن کے ذریعے ہی پلاٹ دیئے جا سکتے ہیں پنجاب کے دوسرے شہروں کے مقامی صحافیوں کو ان کے شہروں میں پلاٹ دینے چاہئیں۔

   عام انتخابات کے انعقاد میں صرف ڈیڑھ ہفتہ باقی رہ گیا ہے لہذا نگران حکومت کی مدت ختم ہونے میں بھی زیادہ وقت باقی نہیں رہا نگران وزیراعلیٰ اور نگران صوبائی وزیر اطلاعات کو صحافی کمیونٹی کے ساتھ تنازع پیدا نہیں کرنا چاہیے تھا اب بھی انہیں چاہیے کہ وہ عام انتخابات سے پہلے لاہور کے نئے صحافیوں کو پلاٹ کی فراہمی کیلئے بھی روڈا سے زمین پنجاب جرنلسٹس ہاؤسنگ فاؤنڈیشن کو منتقل کر کے لاہور پریس کلب کے تمام نئے کونسل ممبرز کو یکساں سائز کے پلاٹس کی الاٹمنٹ کر جائیں تاکہ صحافی کمیونٹی چوہدری پرویز الہٰی کی طرح ان کی خدمات کو بھی یاد رکھے بلکہ خود بھی صحافی رہنے کی وجہ سے محسن نقوی اور عامر میر کی یہ زیادہ ذمہ داری بنتی ہے دونوں کو حکومتی عہدے چھوڑنے سے پہلے یہ کام کر جانا چاہیے تاکہ ان کی صحافی کمیونٹی میں ساکھ بھی بحال ہو سکے نگران حکومت کو ایف بلاک میں بجلی کی فراہمی کا منصوبہ بھی مکمل کروا جانا چاہیے بجلی کی سہولت اور ڈیمارکیشن نہ ہونے کی وجہ سے پریس کلب کے کونسل ممبر الاٹی صحافی ایف بلاک میں اپنے پلاٹس پر گھر تعمیر نہیں کرسکتے ۔(میم سین بٹ)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں