lahore ka jalsa kesa tha | Ali Razza Rehmani

لاہور کا جلسہ کیسا تھا؟؟

تحریر: علی رضارحمانی۔۔

آج ایک سینئر صحافی کے ہاں جو گڑھی شاہو کے مین بازار میں رہتے ہیں انکے ہاں افطاری کے بعد جب مغرب کی نماز سے فارغ ہوئے تو سات بجے کزن کی کال آتی ہے کہ جلسےپر تمہاری ڈیوٹی لگی یا نہیں بولتا ہوں  نہیں یار ، اچھا تو پھر یہ بتاؤ جلسے پر جانےکا کیا موڈ ہے ؟ یار ابھی کوئی آئیڈیا نہیں کہ کب جاتاہوں ۔ افطاری کے بعد چائے کی ایک نشست چلتی ہے جس کے بعد میں اجازت طلب کر پریس کلب کی جانب 7:30 کے قریب کوچ کرتا ہوں۔  آج تو لاہور کی کو ابھی مہربان ہوتی ہے پریس کلب کے مرکزی صحن میں میں نوجوان صحافیوں سے گفتگو کے دوران پھر دو چائے کے دور چلتے ہیں ۔ اس دوران یار غار حافظ طاہر القادری کو کال ملا کر پوچھتا ہوں کہ بھائی کیا موڈ ہے، دوران گفتگو قاضی ثاقب اشارہ کرتے ہیں کہ یہ عمران خان تو نہیں جا رہا ؟ کیا دیکھتے ہیں کہ اسی دوران پروٹوکول کی گاڑیاں عمران خان کو لے کر زمان پارک سے جلسہ گاہ کی جانب جاتے ہوئے پریس کلب کے مرکزی دروازے کو کراس کرتی ہیں۔ اور ہم پریس کلب سے نو بجے کے قریب نکل کر سیدھے یارغار کو بھابھی کی اجازت سے موٹر سائیکل کی پچھلی نشست پر بیٹھا کر براستہ گڑھی شاہو، نسبت روڈ ، گنپت روڈ اور اردو بازار کے مین چوک  کی جانب سے جلسہ گاہ جانے کی کوشش میں بھاٹی چوک پہنچتے ہیں ۔ تو کیا دیکھتے ہیں پناہ گاہ  کے عقب والی روڈ جام ہے۔کوشش کر کے کربلا گامے شاہ والی سائیڈ سے پناہ گاہ کے بالکل سامنے  والے روڈ پر آتے ہیں تو سرگودھا ڈویژن سے آئے پی ٹی آئی ورکرز کی گاڑیاں اور انکا قافلہ اونچی آواز میں ترانے لگ آکر خان کے متوالوں کا جوش جگاتا  ہر آتا ہے۔ اس دوران یار غار  حضورداتا گنج بخش کی بارگاہ میں حاضری کا کہتاہے ۔ سڑک پر کھڑے ہو کر داتا حضور کو سلام کرنے بعد ہم جلسہ گاہ میں جانے کی کوشش کرتے ہیں مگر گاڑیوں کی  لمبی لمبی قطاریں دیکھ کر فیصلہ ہوتا ہے کہ بھاٹی چوک کی جانب سے بادشاہی مسجد کی راہ لی جائے ۔

 اس دوران 10:15 کا وقت ہوا چاہتا ہے۔ ہم اپنی بائیک کا رخ بھاٹی چوک کی طرف موڑ کر پھر اندرون بھاٹی کی گلیوں سے ہوتے ہوئے لوہاری اور پھر ادھر سے کبھی ایک گلی تو کبھی دوسری گلی، اور یوں  گلیوں  کی خاک چھانتے ہوئے فوڈ اسٹریٹ والی سائیڈ سے  بادشاہی مسجد کے عقب میں واقع پنجاب ڈینٹل ہسپتال پہنچتے ہیں  تو عوام کا جم غفیر نظر آتا ہے یہاں سے  جلسہ گاہ  ابھی دور ہے ۔ شائید کوئی تین سے چار سو میٹر دور ہوتی ہے۔ نوجوان ، بزرگ ، بچے کوئی جلسہ گاہ کی جانب گامزن ہے اور کوئی واپسی کی راہ لیتا دکھائی دیتا ہے ۔ادھر بھی  گاڑیوں کی ایک بار پھر سے لمبی لائن کا منظر آنکھوں کے سامنے آتا ہے اور فیصلہ ہوتا ہے کہ عارف چٹخارہ کی جانب جایا جائے۔ ادھر پہنچ کر بائیک  پارک کی جاتی ہے تو امپورٹڈ حکومت نامنظور کے نعرے لگاتے نوجوانوں کی ٹولیاں جوک در جوک گزرتی رہتی ہیں۔ ادھر  خان صاحب کی آدھی سے زیادہ تقریر ٹی وی پر ہی سنی جاتی ہے۔عارف چٹخارہ پر تو جیسےعیدکا سماں ہے ۔ کہیں چہروں پر پی ٹی آئی کے جھنڈے بنوائے نوجوان تو کہیں گلے میں پی ٹی آئی کے  مفلر لیے نوجوان یوں نظر آتے ہیں جیسے تحریک انصاف کی جانب سے جلسے میں شرکت والوں کے لئے عارف چٹخارہ کے تواپیس کھانا پیکج میں دیا گیا ہو۔ کھانے سے فراغت کے بعد نوجوانوں کی ٹولیاں کے رش میں واپسی ہوتی ہے۔مگر اس دوران بھی خان صاحب کی تقریر جاری رہتی ہیں۔ جلسہ گاہ کے اطراف میں  عوام کا رش دیکھنے کے بعد ایک چیز ثابت ہوتی ہے کہ علیم خان کے بغیر بھی تحریک انصاف لاہور میں ایک کامیاب پاور شو کرنے میں کامیاب رہتی ہے۔(علی رضا رحمانی)۔۔

chaar hurf | Imran Junior
chaar hurf | Imran Junior
Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں