تحریر : علی عمران جونیئر
دوستو،کوئی بھی ایسی بات جو آپ کو ناگوار یا نازک طبع پر گراں گزرے اس پر فوری طور پر ’’لغویات‘‘ کا فتوی صادر کردیاجاتا ہے۔۔ آج چونکہ اتوار اور چھٹی کا دن ہے، آج کے دن عام دنوں سے زیادہ پرسکون ماحول اور خوشگوار موڈ ہوتا ہے، اس لیے اس دن کا فائدہ اٹھاتے ہوئے آج ہم موضوع کے حساب سے آپ سے کچھ لغویات کریں گے۔۔ کہتے ہیں کہ ۔۔ وزیراعظم، اپنے گارڈ کے ہاتھ میں گن دے کر خود نہتا، اس کے ساتھ چلتا ہے۔۔ لاکھوں روپے کی حفاظت کے لیے بنک 15000 روپے ماہانہ تنخواہ پر گارڈ رکھتا ہے۔۔ ڈرائیوروں کے اشارے اپنے ہوتے ہیں۔رائٹ انڈیکیٹر کا مطلب ہوتا ہے۔۔۔ کراس کر لو۔۔لیفٹ انڈیکیٹر کا مطلب ہوتا ہے۔ ابھی کراس نہیں کرو۔ سامنے سے گاڑی آ رہی ہے ۔۔دائیں، بائیں مڑنے کے لیے ہاتھ کا استعمال کرتے ہیں۔۔اپنے سے جونیئر کو ترقی دی جائے تو فوجی افسر فوری استعفا دے دیتا ہے مگر سینما کی ٹکٹ بلیک کرنے والا اگر صدر بن جائے تو اسے سلیوٹ بھی مارتا ہے۔۔ ماں، بہن کی گالیوں کو مذاق سمجھتا ہے۔ بیوی کی گالی سے چڑ جاتا ہے۔۔ ان پڑھ قوم کے لیے ٹینکر پہ بچاؤ کی ہدایات انگریزی میں لکھتے ہیں۔جیساکہ۔۔ہائی لی انفلیم ایبل۔۔۔ سڑک پہلے بناتے ہیں۔ پھر اسے کھود کر بجلی، گیس کی لائنیں بچھاتے ہیں۔۔بندہ الیکشن لڑے بغیر بھی وزیر خزانہ بن سکتا ہے۔۔۔ عدالت میں کیس چلتے رہیں۔ بندہ پھر بھی صدر اور وزیراعظم کے منصب پہ رہ سکتا ہے ۔۔ جس کو سورت اخلاص نہیں آتی، وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا وزیرداخلہ بن سکتا ہے۔۔اور جسے پورا قرآن حفظ ہے، وہ دہشت گرد کہلایاجاتا ہے۔۔ مسجدوں سے بجلی کے بل میں ٹی۔ وی لائسنس کی فیس وصول کرتے ہیں۔۔ حادثات میں مرنے، جلنے والوں کے ورثا کو کروڑوں بانٹ دیں گے، مگر حادثات کی روک تھام، سزا جزا اور ایمرجنسی سے نمٹنے پر ٹکا خرچ نہیں کریں گے۔۔ خود قرضے پہ قرضہ لیتے رہتے ہیں اور عوام کو بچت اسکیموں کی ترغیبیں دیتے ہیں۔۔ کھلاڑیوں کو کروڑوں روپے انعام دیتے ہیں، طالب علم کوصرف لیپ ٹاپ۔۔۔ کرمنل اور ان پڑھ لوگ، ایم پی اے، ایم این اے، وزیر، وزیر اعلی، وزیر اعظم اور صدر بن سکتے ہیں۔۔ پڑھے لکھے نوجوانوں کے لیے، کلرکی اور پیلی ٹیکسیاں۔۔ خودتو زبان، قوم، ملک اور مذہب کے نام پہ لڑتے مرتے ہیں۔ مگر خوبصورت عورت پر سب کا اتفاق ہے چاہے کسی زبان، قوم، ملک اور مذہب کی ہو۔۔۔عیدالفطر۔۔ عیدالاضحی۔۔ربیع الاول۔۔ گیارہویں۔۔ شادی بیاہ۔۔سب اسلامی چاند دیکھ کر مناتے ہیں اور عیسوی سال کے آغاز پر اتنی خوشی کا اظہار کرتے ہیں کہ عیسائی بھی حیرت زدہ رہ جاتے ہیں۔۔ مایوں۔مہندی۔شادی بیاہ۔سب میں ہندوستانی کی پیروی اور بیٹی کی رخصتی پر قرآن کاسایہ کرتے ہیں۔۔گانے والوں کو دولت سے نہلادیتے اور صرف علماء اور امام کو قناعت کی زندگی کا حقدار سمجھتے ہیں۔ کہاجاتا ہے کہ۔۔کسی جنگل میں ایک خرگوش کی اسامی نکلی۔۔ ایک بے روزگار اور حالات کے مارے ریچھ نے بھی اس کے لیے درخواست جمع کرا دی۔اتفاق سے کسی خرگوش نے درخواست نہیں دی تو اسی ریچھ کو ہی خرگوش تسلیم کرتے ہوئے ملازمت دیدی گئی۔ملازمت کرتے ہوئے ایک دن ریچھ نے محسوس کیا کہ جنگل میں ریچھ کی ایک اسامی پر ایک خرگوش کام کر رہا ہے اور اسے ریچھ کا مشاہرہ اور ریچھ کی مراعات مل رہی ہیں۔ریچھ کو اس نا انصافی پر بہت غصہ آیا کہ وہ اپنے قد کاٹھ اور جثے کے ساتھ بمشکل خرگوش کا مشاہرہ اور مراعات پا رہا ہے جبکہ ایک چھوٹا سا خرگوش اس کی جگہ ریچھ ہونے کا دعویدار بن کر مزے کر رہا ہے۔ ریچھ نے اپنے دوستوں اور واقف کاروں سے اپنے ساتھ ہونے والے اس ظلم و زیادتی کے خلاف باتیں کیں، سب دوستوں اور بہی خواہوں نے اسے مشورہ دیا کہ وہ فوراً اس ظلم کے خلاف جا کر قانونی کارروائی کرے۔ریچھ نے اسی وقت جنگل کے ڈائریکٹر کے پاس جا کر شکایت کی، ڈائریکٹر صاحب کو کچھ نہ سوجھی، کوئی جواب نہ بن پڑنے پر اس نے شکایت والی فائل جنگل انتظامیہ کو بھجوا دی۔ انتظامیہ نے اپنی جان چھڑانے کے لیے چند سینئر چیتوں پر مشتمل ایک کمیٹی بنا دی۔ کمیٹی نے خرگوش کو نوٹس بھجوا دیا کہ وہ اصالتاً حاضر ہو کر اپنی صفائی پیش کرے اور ثابت کرے کہ وہ ایک ریچھ ہے۔دوسرے دن خرگوش نے کمیٹی کے سامنے پیش ہو کر اپنے سارے کاغذات اور ڈگریاں پیش کر کے ثابت کر دیا کہ وہ دراصل ایک ریچھ ہے۔کمیٹی نے ریچھ سے غلط دعوی دائر کرنے پر پوچھا کہ کیا وہ ثابت کر سکتا ہے کہ وہ خرگوش ہے؟ مجبوراً ریچھ کو اپنے تیار کردہ کاغذات پیش کر کے ثابت کرنا پڑا کہ وہ ایک خرگوش ہے۔کمیٹی نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ سچ یہ ہے کہ خرگوش ہی ریچھ ہے اور ریچھ ہی دراصل خرگوش ہے۔ اس لیے کسی بھی ردو بدل کے بغیر دونوں فریقین اپنی اپنی نوکریوں پر بحال اپنے اپنے فرائض سر انجام دیتے رہیں گے۔ ریچھ نے کسی قسم کے اعتراض کے بغیر فوراً ہی کمیٹی کا فیصلہ تسلیم کر لیا اور واپسی کی راہ لی۔۔ریچھ کے دوستوں نے کسی چوں و چراں کے بغیر اتنی بزدلی سے فیصلہ تسلیم کرنے کا سبب پوچھا تو ریچھ نے کہا۔۔میں بھلا چیتوں پر مشتمل اس کمیٹی کے خلاف کیسے کوئی بات کر سکتا تھا اور میں کیونکر ان کا فیصلہ قبول نہ کرتا۔۔ کیونکہ کمیٹی کے سارے ہی ارکان چیتے در اصل گدھے تھے، جبکہ ان کے پاس یہ ثابت کرنے کے لیے کہ وہ چیتے ہیں باقاعدہ ڈگریاں اور کاغذات بھی تھے۔۔ بات گدھوں کی ہورہی ہے تو ۔۔ایک دفعہ کا ذکر ہے۔۔شیدا اپنی گدھا گاڑی لے کر صبح صبح روزی کمانے نکلا۔ راستے میں بخشو مل گیا جسے گدھا گاڑی کی ضرورت تھی۔ دونوں میں سودا طے ہو گیا۔شیدے نے شارٹ کٹ مارتے ہوئے اپنی گدھا گاڑی کو برساتی نالے والے راستے پر ڈال دیا۔ آگے ایک چھوٹی سے پُلیا تھی جس کے نیچے سے گزرنا تھا۔شیدا جونہی پُلیا کے نیچے سے گدھا گاڑی گزارنے لگا، گدھے کے کان پُلیا سے ٹکرائے۔شیدے نے ادھر ہی گدھا گاڑی روکی اور اپنے تھیلے سے ہتھوڑی اور چھینی نکال کر پُلیا کو اوپر سے چھیلنے لگا۔ بخشو بھی اس کام میں اس کی مدد کرنے لگا۔ابھی وہ اس کام مصروف تھے کہ وہاں سے کسی دانا کا گزر ہوا۔۔اس نے دو بندوں کو پُلیا کو نقصان پہنچاتے دیکھا تو ان کے پاس آئے اور ڈانٹ کر پوچھا کہ وہ پُلیا کو کیوں نقصان پہنچا رہے ہیں۔۔شیدا کہنے لگا۔۔ وہ جی کیا ہے کہ میرا گدھا اس پُلیا کے نیچے سے گزر نہیں سکتا، اس لیے ہم اس کو بڑا کر رہے ہیں۔۔دانا بولا۔۔ بیوقوفو، اوپر سے پُلیا توڑنے کی بجائے نیچے سے زمین کھودو۔۔شیدا ہنس کر کہنے لگا۔۔ مائی باپ گدھے کے پاؤں تھوڑا ہی ناں پھنس رہے ہیں جو ہم زمین کھودیں، وہ تو گدھے کے کان پھنس رہے ہیں، اس لیے اوپر سے توڑ رہے ہیں۔ اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔رشوت لینے والا اور رشوت دینے والا دونوں پاکستانی ہیں۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔