تحریر: اجنبی
پاک میڈیا ایوارڈز پانچ سال کے وقفے کے بعد اس ماہ ہو رہے ہیں۔ ووٹنگ مکمل ہوچکی اور آٹھ فروری کو رزلٹس اناؤنس کیئے جائیں گے۔ پاک میڈیا ایوارڈز کی میڈیا انڈسٹری میں کتنی اہمیت اور کتنی حیثیت ہے یہ میڈیا انسٹری سے وابستہ افراد اور ادارے اچھی طرح جانتے ہیں۔ جو وقعت پاکستان میں نگار ایوارڈز کو ملی وہ کسی اور کے حصے میں نہیں آئی۔ موجودہ دور میں کسی چینل کے نام سے ہونے والے ایوارڈز ہوں یا کسی بیوٹی پروڈکٹ سے وابستہ معاشرتی قدروں کے خلا ف اسٹائل ایوارڈزان کے غیر جانبدار ہونے پر کئی سوالات اٹھتے ہیں۔ آج تک پاکستان میں حقیقی معنو ں میں کوئی بھی ایوارڈ خالصتاً عوامی ووٹنگ یا پسند پر نہیں دیاگیا۔ پانچ سال پہلے منعقد ہونے والے پاک میڈیا ایوارڈز پر جانب داری اور ایوارڈ کی خریدو فروخت کا جو دھبہ لگا تھا اس کے باعث اس وقت تقریباً تمام ہی چینلز خصوصاً ریڈیو چینلز نے آئندہ ان ایوارڈز کے لیئے اپنے چینلز کی نمائندگی بھیجنے پر تحفظات اپنا لیئے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ شاید اس بار کسی بھی چینل سے نامزدگیاں لینے کے بجائے منتطمین نے خود ہی اپنی کسی ریسرچ ٹیم کے ذریعے (جس میں شامل افراد اور ریسرچ کا طریقہءکار کیا رکھا گیا،معلوم نہیں) ریڈیو چینلز سے خود ہی نام چن لیئے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ نہ تو متعلقہ ریڈیو چینلز ، ان کے پروگرامنگ ڈپارٹمنٹس کو اور نہ ہی نام زد ہونے والے آر جیز کو اطلاع ہوئی۔ یہ رازاداری چہ معنی دارد!
پاک میڈیا ایوارڈز اگر اتنے ہی معتبر اور غیر جانب دار ہیں تو پھر گزشتہ پانچ سالوں میں کیا میڈیا میں کام نہیں ہوا ؟ یا یہ کام اس قابل نہیں تھا کہ اسے سراہنے کے لیئے ان ایوارڈز کو قابلِ بھروسہ بنا کر، چینلز اور اداروں کے تحفظات دور کر کے ایک شفاف اور واضح لائحہ عمل بنایا جاتا جس سے نہ صر ف مقابلے کی فضا قائم ہوتی بلکہ انڈسٹری میں مجموعی طور پر بھی بہتری آتی۔ ریڈیو چینلز کے حوالے سے جن لوگوں کو نام زد کیا گیا ہے وہ گدھے گھوڑے برابر کرنا ہے۔ پاکستان میں مختلف ایف ایم ریڈیو چینلز پرجس طرح معاشرتی قدروں کا قتل کیا جارہا ہے، جس طرح اردو زبان کا دامن تار تار کیا جارہا ہے، براڈکاسٹنگ کے اصولوں کو بالائے طاق رکھ کر مائیکرو فون اور گلی کے چبوترے کا فرق ختم کردیا گیا ہے اس لحاظ سے صرف دو تین نام ہی رہ جاتے ہیں جو واقعی ایوارڈ کی نام زدگی کے حقدار ہوں۔ گزشتہ ایوارڈذ میں جس طرح سیاسی اثرو رسوخ بھی استعمال ہوتے رہے وہ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں، کراچی میں اس وقت سیاسی فضا کیا تھی اور منتظمین کی ہمدردیاں،وفائیں ویسے ہی ان ایوارڈز کی غیر جانب داری پر سوالیہ نشان بنی رہتیں۔
ایوارڈز کا مقصد کسی بھی ٹیلنٹ کو سراہنے ، حوصلہ افزائی کرنے کا نام ہے مگر ایمانداری کے ساتھ ۔ کیا ہی اچھا ہو کہ پاک میڈیا ایوارڈز واقعی پاک بنا ئے جائیں،میڈیا سے وابستہ افراد کی کیٹیگیریز میں ان فنکاروں کو بھی شامل کیا جائے جو آج کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں، جنہیں معاشرہ بھول چکا ہے، صرف ایوارڈ ہی نہیں بلکہ مالی فائدہ بھی پہنچایا جائے کیوں کہ سرکار، تالیوں سے، ستائش سے، واہ واہ سے فنکار کے چہرے پر مسکان آسکتی ہے مگر اس کے گھر کا چولھا نہیں جل سکتا، اخراجات پورے نہیں ہوسکتے ۔ پاک میڈیا ایوارڈز میں اگر اس بار واقعی شفاف طریقے سے انعامات دیئے جا رہیں تو ہماری مبارک باد ورنہ ریوڑیاں بانٹنے کا یہ عمل وقت کا زیاں ہے۔
نوٹ: میری اس تحریر کو میرے ادارے کا موقف نہ سمجھا جائے۔)اجنبی۔ ہیڈ آف پروگرامنگ، اپنا کراچی ایف ایم ایک سو سات)۔۔
(عمران جونیئر ڈاٹ کام کا مصنف کی تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں، اگر کسی کو اختلاف ہے تو وہ اپنا موقف ہمیں دے سکتا ہے جسے ہم ضرور شائع کریں گے، علی عمران جونیئر)۔۔