electronic media mein samajhdaari aachuki hai

لفظی چورن کھلاتے رہیں۔۔

تحریر: ایاز امیر۔۔

اب بس ہے ہماری۔ جو آپ نے کہا ہم نے کیا۔ جو نعرے ہمیں بتلائے گئے حلق پھاڑ پھاڑکرہم نے بلند کیے۔ حب الوطنی کے جو آدرش ہمیں دیے گئے‘ بخوشی ہم نے قبول کیے۔ ملک کی تقدیر آپ کے ہاتھوں میں رہی‘ لیکن ملک کے ساتھ اب تک کیا کچھ ہوا‘وہ ہم دیکھ چکے ہیں۔اچھا بھلا ملک تھا کہاں سے کہاں آپ کی صلاحیتوں نے اسے پہنچا دیا۔اب حالت یہ ہے کہ ہم کہیں کے نہیں رہے۔ صاحبانِ مسند دادِ عیش وصول کرتے رہے قوم کو مگربھکاری بنا دیا گیا۔ اور اب تو کوئی کشکول میں کچھ ڈالنے کے لیے بھی تیار نہیں۔ ہمارا بھکاری پن ہمارے کسی کام نہیں رہا۔

تو اب یہی آپ سے التجا ہے کہ بس کر یں۔جو ناٹک رچائے گئے‘ ہم نے تالیاں بجائیں۔لیکن اللہ کا کرنا کیا کہ اب تو ناٹک بھی سارے ختم ہو چلے ہیں۔اب تو کوئی تھاپ نہیں رہ گئی جس پہ ڈگڈگی بجے اور ہم ناچیں۔ سارا کچھ ختم ہوتے ہم دیکھ رہے ہیں۔ اکڑ البتہ ہمارے آقاؤں کی قائم ہے۔ بولتے ہیں تو اب بھی گمان ہوتا ہے کہ ان کے پاس ہر چیز کا جواب ہے‘ حالانکہ سوال ختم ہو چکے کسی جواب کی بھی گنجائش نہیں رہی۔ ہمارا پوچھنا تو پھر بنتا ہے کہ حضور اتنا اترانا کس بات پر؟

جو درس ہمیں دیا گیا وہ ہم نے سیکھا۔ چنگیز خان یا ہلاکو کی فتوحات تو نہ ہوسکیں لیکن کچھ نغمے تو اچھے گائے گئے جو ہماری یادوں کا خوبصورت حصہ بن چکے ہیں۔کشمیر کا ہمیں کہا گیا‘ ہماری بھول دیکھئے کہ ہم سمجھے کہ آج نہیں تو کل‘ کشمیر ہمیں مل جائے گا۔ بنگالیوں کے بارے میں جو کچھ ہمیں بتلایا گیا من و عن اُسے تسلیم کیا۔الیکشن ہوئے تو اُدھر ووٹ بنگالیوں کو پڑے۔ ہمیں کہا گیا کہ اسمبلی کا اجلاس بلانا قومی مفاد میں نہیں۔ہم نے عذر تسلیم کیا۔ مشرقی پاکستان کے خلاف ایکشن شروع ہوا ہم جو صدیوں کے تابعدار ٹھہرے ہم نے کوئی زیادہ چوں چرا نہ کی۔بھٹو ہمارے ایک جمہوری لیڈرہوا کرتے تھے۔ ایکشن سے پہلے اُنہوں نے کہا تھا کہ کوئی اسمبلی کے اجلاس کیلئے ڈھاکہ گیا تو اُس کی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی۔ہم نے کہا: جئے بھٹو۔جنرل یحییٰ خان اچھے جنگجو تھے۔اُن کی شامیں بھی ‘اچھی‘ گزرا کرتی تھیں۔ظاہر ہے اُن کی حکمرانی کو بھی ہم نے قبول کیا۔

قصہ لمبا ہو جائے گا۔ کشمیر ہمارے ہاتھ نہ آیا اور مشرقی پاکستان بھی چلاگیا۔ لیکن ہم پُرعزم رہے اور یہاں پر اعلان ہوا کہ ایک نیا پاکستان بنے گا بالکل ویسے ہی جیسے آج کے لیڈر عمران خان کہتے ہیں کہ وہ نیا پاکستان بنانے چلے ہیں۔بھٹو صاحب ‘نیا پاکستان‘ بناتے بناتے تختہ ٔدار پر چڑھا دیے گئے۔ ہمیں اس واقعے کا بہت صدمہ ہوا لیکن کوئی زیادہ شورہم نے نہ مچایا۔ جس عظیم المرتبت شخص نے بھٹو کو سولی پر چڑھایا اُس کی حکمرانی ہم نے ساڑھے گیارہ سال بخوشی قبول کی۔اسلام کا نعرہ بلند ہوا تو ہم نے لبیک کہا۔ ضیا الحق نے جو کچھ کیا‘ ہم میں سے بہت تھے جو کہتے نہیں تھکتے تھے کہ یہ سب اسلام کی سربلندی کیلئے ہو رہا ہے۔

کشمیر ہاتھ سے چھوٹ چکا تھا‘ بنگلہ دیش بن چکا اور افغانستان میں ہمارے لیے نئے میدان کھلنے لگے۔اپنے مسائل تو حل نہ ہوئے لیکن افغانستان کو آزاد کرنے ہم نکلے۔افغان قوم کی حریت پسند ی کے لیے اپنا ستیاناس کر بیٹھے۔ ضیا اور اُن کے ساتھیوں کی صورت میں ہمیں جو قیادت نصیب ہوئی اُس کی دوراندیشی کا تو ملاحظہ ہوکہ اُس نے افغانستان کے مسائل کو ایسے گلے لگایا کہ وہ ہمارے مسائل بن گئے۔ افغانستان کے لیے سب کچھ نچھاور کر دیا اس خیال میں کہ ہم اپنے آپ کو مضبوط کررہے ہیں۔ چالیس سال بعد دھیرے دھیرے ہمیں سمجھ آنے لگی ہے کہ بڑا دشمن ہم نے ہندوستان کو بنا رکھاتھا لیکن آج زیادہ خطرہ مغربی بارڈر سے ہے۔ ہندوستان والا بارڈر چپ ہے‘ افغانستان والے بارڈر پر آئے روز کچھ نہ کچھ ہو جاتا ہے۔بلوچستان کا مسئلہ علیحدہ ہے اور کسی کو معلوم نہیں کہ بلوچستان میں جوگڑبڑ ہو رہی ہے اُس کا حل کیا ہے۔

اوپر سے کشکول خالی‘ معیشت کا برا حال۔ جہاں تک ڈالر کا تعلق ہے اُس کے ہاتھوں ہمارا مذاق ہو رہا ہے۔سیاست کا جو حال ہے وہ بھی دیکھ رہے ہیں۔ حکومت میں ایک افلاطونوں کا ٹولا لایا گیا ہے۔ لیکن کریں کیا۔ الیکشن فوری کرائے نہیں جاسکتے کیونکہ ڈر ہے کہ حکومتی اتحاد کا وہ حشر ہوگا کہ الامان الحفیظ۔ایڑھیاں رگڑ رگڑ کر آئی ایم ایف سے کوئی بلین ڈالر کی قسط ملی لیکن ڈالر ہے کہ ہماری قومی غیرت کو للکارتا جا رہا ہے۔خوش آئند بات البتہ یہ ہے کہ ہمارے ایف سولہ طیاروں کو اَپ گریڈ کرنے کے لیے امریکہ سے ساڑھے چار سو ملین ڈالر کے ایک معاہدے پر دستخط ہوئے ہیں۔

مسئلہ یہ ہے کہ ہم بہت دیکھ چکے ہیں۔ تنگ نہیں آئے لیکن تھک ضرور گئے ہیں۔ حب الوطنی کے مزید آدرش کی تاب نہیں رکھتے۔ ہم تو سمجھتے تھے کہ عقلِ کل آپ ہیں۔ ہرمسئلے کا حل آپ کے پاس ہے۔ قوم کی رہنمائی جب فرمائیں گے تو قوم کہاں سے کہاں پہنچ جائے گی۔جنوبی کوریا کو تو ہم کچھ سمجھتے نہ تھے۔ جہاں بہت سی اور کہانیاں بنیں‘ وہاں اس کہانی کو بھی ترویج ملی کہ ترقی کے راز جنوبی کوریا نے ہم سے سیکھے تھے۔ یعنی کسی ہمارے پانچ سالہ منصوبے سے جنوبی کوریا مستفیض ہوا تھا لہٰذا جنوبی کوریا جیسے ملک کو ہم نے خاطرمیں کیا لانا تھا۔ سنگاپوروغیرہ کی بات کی جائے۔ وہ زمانہ بھی تھا کہ ہم ایشیا کے ٹائیگروں کی فہرست میں شامل ہونے کی بات کرتے تھے لیکن اب جو حالت ہو چکی ہے‘ کس کو ذمہ دار ٹھہرائیں؟

کبھی تو خیال آتا ہے کہ کچھ نصیب ہی ایسے تھے۔ بطورِ قوم الف لیلہ کی کہانیوں پرہمیں پالا گیا۔ کچھ عرصہ تو گزارا چلتا رہا لیکن اب جانکاری ہو رہی ہے کہ کہانیوں سے کام چلے گا نہیں۔ایک اور المیہ جو ہوا ہے وہ یہ کہ چوکیداریاں ختم ہو گئی ہیں۔افغانستان کی چوکیداری پر ہم دو دفعہ مامور رہے۔ اچھاخاصا پیسہ آ جاتا تھا‘ گزارا ہو جاتا تھا۔ امریکہ وہاں سے جاچکا ہے اور جنہیں ہم دوست سمجھتے تھے وہ ہمیں آنکھیں دکھا رہے ہیں۔ہماری چالیس سالہ افغان پالیسی کا لب ِ لباب یہ نکلا ہے۔ یہ اچھی بات ہوئی کہ قطر سے معاہدہ ہو گیا ہے کہ وہاں جو فٹ بال کاورلڈ کپ ہونا ہے اُس کی سکیورٹی کے فرائض ہم ادا کریں گے۔

قومی زندگی کے سفر میں یہاں تک جو ہم پہنچے ہیں تو اب التجا یہی رہ جاتی ہے کہ جس حال میں ہیں‘ رہنے دیجئے۔ کچھ آپ کی صلاحیتوں کا احساس ہوچکا ہے اور اپنی بیچارگی کا بھی بخوبی اندازہ ہے۔ آپ نئے کرتب سیکھ نہیں سکتے کیونکہ کچھ سیکھنے کی گنجائش نہیں رہی۔آپ نے سدھرنا نہیں لیکن ہم نے بھی کچھ کہنا نہیں۔صدیوں کا درس ہمارا یہی ہے کہ جو حال بھی ہو‘ قبول کرو۔اس پرانے درس پر ہم قائم ہیں۔ لیکن ہمارے کچھ نہ کہنے کا مطلب یہ نہیں کہ آپ ہمیں لفظی چورن کھلاتے رہیں۔ برداشت کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ سب سہہ لیں گے لیکن اب آپ کی باتیں سہی نہ جاسکیں گی۔(بشکریہ دنیانیوز)

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں