تحریر: ایاز امیر۔۔
بھاری دل سے یہ لکھنا پڑ رہا ہے لیکن جتنا بھی حالات کا جائزہ لیا جائے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ مسائل اتنے بڑھ چکے ہیں کہ ہمارے بس میں نہیں رہے۔ پھر یہ بھی ہے کہ ہماری صلاحیتیں محدود ہیں۔ جسے آپ اشرافیہ یا حکمران طبقہ کہتے ہیں اُس کا معیار ہر لحاظ سے بہت پست ہے۔ اجتماعی سوچ کوئی اتنی اونچی نہیں۔ سوچ میں گھٹیا پن بھی ہے۔ یہ کہاں کی روش یا روایت ہے کہ کسی نے کچھ کہا اور آپ کو وہ بات پسند نہ آئی تو بیہودہ طریقے سے اُسے اٹھا لیا اور پھر اُسے گھٹیا قسم کے تشدد کا نشانہ بنایا۔ ایسا تو وہاں ہوتا ہے جہاں مہذب ہونے کا فقدان ہو۔ بطورِ آزاد ملک پچھتر سال ہو گئے ہیں لیکن اجتماعی کردار میں گھٹیا پن کم نہیں ہوا‘ اس میں اضافہ ہی ہوتا گیا۔
کل ہی ایک رپورٹ پڑھ رہا تھا کہ اگلے مالی سال میں روپے کی قدر میں مزید کمی ہوگی۔ اس میں یہ لکھا تھا کہ ڈالر کی نسبت روپیہ تین سو تیس کو پہنچ جائے گا۔ بزنس لیڈر تنبیہ کر رہے ہیں کہ ہم ڈیفالٹ کی طرف جا رہے ہیں۔ زرِ مبادلہ کے ذخائر بس ایک ماہ کی امپورٹ کے لیے کافی ہیں۔ حیرانی کی بات البتہ یہ ہے کہ ہمارے اللے تللوں میں کوئی فرق نہیں آ رہا۔ افسران اور سیاست دانوں کی ٹھاٹ دیکھیں تو گمان ہوتا ہے کہ یہ بڑا امیر ملک ہے۔ شاپنگ مال بنتے جا رہے ہیں اور شادی ہالوں کا تو حال ہی نہ پوچھئے۔ لگتا ہے کہ سوائے ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے اور شادیوں کے اس ملک میں اور کچھ نہیں ہوتا۔ معاشرے کی رگوں میں یہ سرطان کی طرح پھیل چکا ہے۔ ہر ایک اس میں لگا ہوا ہے کیونکہ اور کام تو ہم نے کرنا نہیں‘ بس فائلیں ادھر ادھر کرکے پیسے کمانے ہیں۔
بتائیے ایسی صورتحال کا علاج کیا ہے؟ ان بیماریوں نے ایسی جڑ پکڑ لی ہے کہ کوئی ہلاکو خان آئے تو وہ بھی نہ کاٹ سکے۔ اور ہمارے نصیبوں میں جو لیڈر ہیں وہ تو ڈنگ ٹپاؤ قسم کے رہنما ہیں۔ اپنا مفاد ہر ایک کو عزیز ہوتا ہے‘ اُنہیں بھی ہے لیکن ان کی سوچ وہیں تک محدود ہے۔ کس کس کا نام لیں‘ لگتا ہے سارے کے سارے ایک ہی قماش کے ہیں۔ تو پھر پاکستان سیدھا کیسے ہوگا؟ صحیح راہ پہ کیسے آئے گا اور کون لائے گا؟ لاکھ سوچتا ہوں‘ مجھے تو ان سوالوں کا جواب نہیں ملتا۔ میری ناقص رائے میں حالات نے مزید خراب ہونا ہے حتیٰ کہ ایک صحیح بحرانی کیفیت پیدا نہ ہو جائے۔ اُس نکتے تک پہنچیں پھر ہی شاید کوئی حل نکلے۔ یعنی موجودہ بحرانی کیفیت کو اپنے نقطۂ عروج پر پہنچنا ہوگا اور تب ہی شاید قوم کی زندگی میں کوئی نئی شروعات ہو سکے۔ ہماری سمجھ میں یہی آتا ہے۔
قرضوں میں ہم جکڑے ہوئے ہیں اور سالانہ ادائیگیاں اتنی ہیں کہ ہماری استعداد سے باہر ہیں۔ پہلے آسان طریقہ یہ ہوا کرتا تھا کہ نئے قرضے لے کر پرانے قرضوں کی ادائیگی کرتے تھے۔ اب یوں لگتا ہے کہ قرضے دینے کے لیے بھی کوئی تیار نہیں۔ سعودی عرب کے تین بلین ڈالر جو ہمارے سٹیٹ بینک میں رکھے ہوئے ہیں‘ اُن کی معیاد دسمبر میں ختم ہونی تھی‘ سعودی دوستوں کی مہربانی کہ یہ رقم ایک سال اور ہمارے پاس رہے گی۔ اگلے دسمبر میں واپس کرنی ہوگی لیکن یہاں بغلیں بجائی گئیں کہ دیکھیں یہ ہماری بڑی کامیابی ہے۔ یہ ہماری حالت ہو چکی ہے۔
آگے کیا ہونا ہے کسی کو نہیں معلوم۔ جاتے جاتے کسی لیڈر کو آپ پکڑ لیں اور یہ سوال پوچھیں تو آپ کو جواب نہیں ملے گا۔ جواب کسی کے پاس ہے ہی نہیں۔ اب تو کوئی امید بھی نہیں دے رہا۔ اسحق ڈار آئے تو اُنہوں نے بڑی بڑھکیں ماریں لیکن بڑھکیں بھی اب تھوڑی دھیمی پڑ گئی ہیں۔ پیسے ہیں نہیں‘ مراعات یافتہ طبقات پر ٹیکس لگ نہیں سکتے اور حکمرانی کمزور ہے۔ تو بتائیے پھر ہم کہاں جائیں؟
خیال تو یہی آتا ہے کہ قوم کے غم کو ایک طرف رہنے دیں اور اپنا سوچیں۔ اپنے گاؤں میں دیکھتا ہوں درمیانے قسم کا زمیندار ٹھیک ہے۔ اناج اپنا‘ دودھ اپنا‘ اجناس کی قیمتیں بڑھ چکی ہیں لہٰذا جن کی پیداوار اچھی ہے اُس سے خاطر خواہ پیسے آ جاتے ہیں۔ شہر کے غریب طبقات گندم اور آٹے کے پیچھے مارے مارے پھرتے ہیں۔ درمیانے زمیندار کو کم از کم یہ فکر لاحق نہیں ہوتی۔ گندم کی قیمت اوپر جا رہی ہے‘ مونگ پھلی کا ریٹ تو اس دفعہ بہت ہی اونچا رہا۔ قوم کو بھی کچھ سوچنا چاہئے۔ کمپیوٹر اور سیٹلائٹ تو ہم نے بنانے نہیں فی الحال اسی زراعت پر توجہ مرکوز کریں۔ کھانے پینے کی چیزوں میں خودکفیل ہو جائیں۔ یہ امر باعثِ شرم ہے کہ خوردنی تیل باہر سے آتا ہے‘ دالیں باہر سے آتی ہیں‘ سبزیاں باہر سے آ رہی ہیں۔ اور تو اور ہمیں گندم امپورٹ کرنی پڑرہی ہے۔
پی آئی اے کو بیچنا چاہئے‘ سٹیل مل کو بیچنا چاہئے‘ چاہے ان دونوں اداروں کی قیمت ایک روپیہ لگے۔ یہ گھاٹے کے سودے ہو کر رہ گئے ہیں‘ ان سے جان چھڑانی چاہئے۔ ملائیشیا اور انڈونیشیا سے جو خوردنی تیل ہم منگوا رہے ہیں یہ بند ہونا چاہئے۔ کسانوں کو مائل کرنا چاہئے کہ کینولا پیدا کریں تاکہ اپنا خوردنی تیل خود پیدا کر سکیں۔ چینی کی پروڈکشن کم ہونی چاہئے اور جیسا ایک زمانے میں ہوا کرتا تھا‘ گڑ کے استعمال کو ترجیح ملنی چاہئے۔ کپاس کی فصل تباہ ہو گئی ہے‘ کیا ہم کپاس باہر سے منگوائیں گے اور پھر ہماری فیکٹریاں چلیں گی؟ چھوڑیں ان پلازوں اور شادی ہالوں کو۔ ان پر بھاری ٹیکس لگنا چاہئے تاکہ جن لوگوں کے پاس کچھ سرمایہ ہے وہ زراعت میں لگائیں۔ ایک تو ایمرجنسی قانون پاس ہونا چاہئے کہ ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے حوالے سے زرعی زمین کے ہڑپ ہونے کا عمل فوری طور پر ختم ہو۔ ہاؤسنگ سوسائٹیاں کسی رعایت کی حقدار نہیں۔ ان پر ٹیکس لگنا چاہئے۔ پتا نہیں کہاں سے یہ ڈویلپمنٹ ماڈل آیا ہے کہ سریا اور سیمنٹ پر سرمایہ لگائیں تو قوم کی ترقی ہو جائے گی۔ بندہونا چاہئے اس سلسلے کو۔ لیکن یہ کون کرے گا؟ ہر ایک کے ہاتھ دھنسے پڑے ہیں اس نفع بخش کاروبار میں۔
ایک دو اور چیزیں۔ پلاسٹک شاپروں کا بے دریغ استعمال اس دھرتی اور اس کے دریاؤں کو تباہ کر رہا ہے۔ اس مکروہ استعمال کو ہماری حکومتیں ختم نہیں کر سکتیں تو انہوں نے اور کون سی توپیں چلانی ہیں؟ دوسرا یہ کہ ایک علما کونسل بٹھائیں تاکہ ضیا ء الحق کے سماجی قوانین جو اب تک قوم کے گلے میں لٹکے ہوئے ہیں‘ پرغور ہو سکے۔ اُن صاحب کے اپنے محدود مقاصد تھے۔ اُن کے پاس اور تو کچھ تھا نہیں بس اخلاقیات اور پارسائی کا ڈھول پیٹتے رہے۔ اُ ن کو گئے عرصہ گزر چکا ہے۔ اُن کے سماجی قوانین کو اب ختم ہونا چاہئے۔ یا تو ان قوانین کی وجہ سے یہ معاشرہ بڑا نیک ہو گیا ہو پھر تو ہم بھی زندہ باد کہیں۔ لیکن ہوا صرف اتنا ہے کہ معاشرے میں منافقت بہت پھیل گئی ہے۔ قول و فعل میں تضاد بڑھ گیا ہے۔ اور دو نمبری اتنی بڑھ چکی ہے کہ قوم کی صحت برباد ہو رہی ہے۔ یہ چیزیں کسی کو نظر نہیں آتیں؟ ان فرسودہ قوانین کو ختم کیا جائے تاکہ ایک نیا ماحول پیدا ہو۔ نئی روایات کے جنم سے کاروبار بڑھیں گے۔ سروس سیکٹر میں لوگوں کی کھپت ہوگی۔ ہمارے پرانے کلچر کے جو امین ہیں اُنہیں تلاشِ روزگار کی خاطر دبئی نہیں جانا پڑے گا۔ عوام کے ذہنوں میں آزادی کی نئی رمق پیدا ہوگی۔لیکن اس کے لیے بھی مضبوط حکمرانی چاہئے۔ وہ کہاں سے آئے گی؟(بشکریہ دنیانیوز)