تحریر: منزہ انوار۔۔
کیا پاکستانی ڈرامے اس قابل نہیں رہے کہ انھیں اپنے خاندان کے ساتھ بیٹھ کر دیکھا جا سکے؟ یہ سوال پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کی جانب سے حال ہی میں تمام ٹی وی چینلز کو متنازع اور غیراخلاقی موضوعات پر مبنی ڈراموں کی نشریات کو فوراً روکنے کے لیے جاری کی گئی تنبیہ کے بعد پیدا ہوا۔پیمرا نوٹس میں ہے کیا؟ پیمرا کی جانب سے مقامی انٹرٹینمنٹ ٹیلی وژن چینلز کو جاری کردہ نوٹس میں کہا گیا ہے کہ متنازع اور غیر اخلاقی موضوعات پر مبنی ڈراموں کی عکس بندی معمول بن گیا ہے اور نامناسب لباس و حرکات بھی آج کل کے ڈراموں کا خاصہ بن چکی ہیں جو ناظرین کے لیے ذہنی اذیت اور کوفت کا سبب ہے۔پیمرا نے اپنے نوٹس میں کہا ہے کہ ڈراموں میں عورت کو جس انداز میں دکھایا جا رہا ہے ناظرین کی کثیر تعداد اس پر شدید تنقید کر رہی ہے۔
نوٹس میں تمام ٹی وی چینلز کو آگاہ کیا گیا ہے کہ وہ ڈراموں میں ایسے موضوعات پیش کریں جو پاکستانی معاشرے کی حقیقی عکاسی کریں اور اسلامی، سماجی اور معاشرتی اُصولوں کے ہم آہنگ ہوں۔ڈراموں کے ذریعے بے راہ روی اور برائیوں کو اجاگر کرنے سے گریز کریں۔ حساس موضوعات جیسے کہ طلاق اور حلالہ سے متعلق مواد پیش کرنے سے اجتناب کیا جائے۔پیمرا کے اس نوٹس پر بی بی سی سے بات کرتے ہوئے معروف ڈرامہ نگار اور مصنف خلیل الرحمن قمر نے کہا کہ ‘قلم کار کے کام میں کبھی مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔۔ان کا کہنا تھا کہ ’میں یہ سمجھتا ہوں کہ کسی کو یہ جرات نہیں کرنی چاہیے کہ وہ ٹیلی ویژن یا فلم کے مزاج کو اپنے تئیں بدلنے کی کوشش کرے۔ لکھنے اور بنانے پر کوئی حد بندی نہیں ہونی چاہیے یہ آزادی ملک کی ترقی کے لیے بہت ضروری ہے‘۔ ان کا کہنا تھا ‘کیا آج کل ٹیلی ویژن پراداکار ننگے نظر آ رہے ہیں؟ ڈرامے میں بھی وہی لباس ہے جو لوگ عام طور پر پہنتے ہیں‘۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اگر باقی سارے کام جدید دنیا کے حساب سے کر رہے ہیں تو ڈرامے کو دقیانوسی دور میں کیوں رکھنا ہے؟’اسی بارے میں مصنف اور تجزیہ کار محمد حنیف کا موقف تھا کہ ’پیمرا کو ڈرامے غیر اخلاقی نہیں لگتے، انھیں عورت کا وجود غیر اخلاقی لگتا ہے۔ ان کو ڈرامے سے کوئی مسئلہ نہیں ان کو عورت سے مسئلہ ہے۔‘انھوں نے کہا کہ ’پیمرا کے لیے بنیادی طور پر عورت ایک فُحش شے ہے جس پر وہ پابندی لگانا چاہتے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ جیسا کہ زیادہ تر ٹیلی وژن ڈرامے خاندانی مسائل پر بنتے ہیں جن میں مرکزی کردار عورت ہی ہوتی ہے چاہے وہ بیوی، ماں یا ساس کے روپ میں ہو، تو ان کو اس کی عکس بندی سے مسئلہ ہے کہ یہ عورت جو سکرین پر نظر آ رہی ہے تو کیوں نظر آرہی ہے۔‘طلاق اور حلالہ کے موضوع پر ان کا کہنا تھا ’آپ ڈیٹا اٹھا کر دیکھ لیں پہلے کتنی طلاقیں ہوتی تھیں اور آج کل کتنی ہو رہی ہیں۔ اب اگر ایک چیز معاشرے میں ہو رہی ہے تو وہ کہانی اور ڈرامہ میں آئے گی ہی‘۔ فلم اور ٹیلی وژن کے تجزیہ کار اور ناقد، حسن زیدی کا کہنا تھا اس نوٹس سے تو لگتا ہے پیمرا والے ضیا دور کے قوانین سے متاثر ہیں جن میں عورتیں سر ڈھکے بغیر نہیں دکھائی جا سکتی تھیں، ان کے جینز پہننے پر پابندی تھی۔انھوں نے مزید کہا کہ ’مجھے اس سے اپنے ڈرائیور کی کہانی یاد آتی ہے جو آج سے 25 سال پہلے پاکستان میں سیٹلائٹ ڈِش کے آنے سے بہت پریشان تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ سیٹلائٹ چینلز پہ ایسی چیزیں آتی ہیں جو آپ گھر کی خواتین کے ساتھ بیٹھ کر نہیں دیکھ سکتے، تو میں نے اسے بھی یہی کہا تھا تمھیں مجبور کون کرتا ہے؟‘
میڈیا میٹرز فار ڈیموکریسی کی پروگرام مینیجر صدف خان کہتی ہیں کہ ‘چونکہ یہ ایڈوائزری جاری کر دی گئی ہے تو اب اگر اس کے بعد کوئی ایسا مواد یا ڈرامہ نشر کیا جاتا ہے جو کسی صارف کے نزدیک اس نوٹس میں دی گئی ہدایات کے منافی ہے تو اس کی بنیاد پر شکایت درج کروا کے پیمرا کے طریقہ کار پر عمل کرتے ہوئے اس چینل کو سزا، جرمانہ یا بندش لگ سکتی ہے۔’تاہم ماضی میں یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ جب بعض چینلز اور اینکرز پر پیمرا کی جانب سے پابندیاں لگیں تو وہ پیمرا کے خلاف عدالت سے حکمِ امتناعی لے آئے اور ان کے پروگرام اس کے بعد بھی جاری رہے۔پاکستان میں پچھلے تین چار سال میں طلاق، حلالہ، ریپ اور بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی جیسے معاشرتی مسائل پر بننے والے ڈرامے کافی مقبول رہے ہیں۔ اس کی مثالیں ’اُڈاری‘، ’مقابل‘، ’کتنی گرہیں باقی ہیں‘ اور ’چُپ رہو‘ جیسے ڈرامے ہیں جن پر پیمرا کی جانب سے پابندیاں بھی لگیں لیکن عوام نے انھیں بےحد پسند کیا۔تاہم یہ کہنا بھی درست نہیں ہو گا یہ رائے تمام ناظرین پر لاگو کی جا سکتی ہے۔ اسلام آباد یونیورسٹی کی لیکچرار شمائلہ مدثر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’کسی حد تک پاکستانی ڈراموں میں بہت ساری چیزیں ایسی دکھاتے ہیں جو ہماری سوسائٹی میں نہیں ہو رہیں مثلاً خاندانی سیاست اور گھریلو جھگڑے۔ یہاں ہوتے ہیں لیکن اتنے زیادہ نہیں یہ سب انڈین ڈراموں سے لیا گیا ہے۔‘اس حوالے سے خلیل الرحمن قمر کا کہنا تھا کہ ’پیمرا کے پاس اتنے قابل اور تخلیقی لوگ نہیں ہیں جو فیصلہ کر سکیں کہ کسی کو کیا بنانا چاہیے۔ یہ کام پیمرا کا نہیں ہے ۔ اس کے لیے ٹیلیویژن اور فلم کے لوگوں پر مشتمل ایک خود مختار ادارہ ہونا چاہیے۔حسن زیدی کا کہنا ہے کہ ’اصل سوال یہ ہے کہ پاکستانی ثقافت ہے کیا اور پیمرا جیسے ادارے، سیاستدان یا بیوروکریٹس کون ہوتے ہیں جو ہمارے لیے قابلِ قبول ثقافت کی تشریح کریں؟‘(بشکریہ بی بی سی )