تحریر: نعیم کھوکھر۔۔
تنظمیں آئین کو فوقیت دینے سے ہی مضبوط ہوتی ہیں۔انسان کی ترقی کے دو راستے ہیں، ایک محنت اور دوسرا سازش، ایک دیرپا اور تاریخ میں آپ کو اچھے الفاظ میں محفوظ کرتا ہے اور دوسرا وقتی اور تاریخ میں آپ کو بطور ولن محفوظ کر لیتا ہے۔
گزشتہ چند دنوں سے کراچی یونین آف جرنلسٹس کی منتخب قیادت کیخلاف پی ایف یو جے کے ائین سے ماورا اقدام اٹھائے جانے کا سوشل میڈیا پر غلغلہ مچا ہوا ہے (اب تک پی ایف یو جے نے منتخب باڈی کو شاید اسی لئے نہ کوئی نوٹس دیا، نہ ہی انہیں معطلی کا بتایا، اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ انہیں خود بھی اپنے اس خلاف آئین اقدام کا مکمل علم ہے اور اسی بنا پر انہوں نے متاثرہ فریق کو اپنے فیصلے سے آگاہ کرنے کے بجائے سوشل میڈیا پر سازشی عناصر کے ذریعے اسے پھیلایا تاکہ وہ کراچی یونین آف جرنلسٹس کا ردعمل دیکھ سکیں) بنیادی طور پر کسی ذیلی تنظیم کو معطل کرنے کی ٹھوس وجوہات اور پھر عمل درآمد کیلئے ان آئینی وجوہات کا ذکر لازمی ہوتا ہے، جس کی بنا پر آپ کو معطل یا آپ کی رکنیت ختم کی جاتی ہے۔ پوری پی ایف یو جے کی تاریخ میں کسی یو جے کی باڈی تحلیل کر کے ایڈہاک باڈی بنانے کی یہ پہلی نظیر ہے، جس کا ہمیشہ آئندہ ذکر ہوتا رہے گا۔ سوال یہ ہے کہ کراچی یونین آف جرنلسٹس ہی کیوں ہمیشہ پی ایف یو جے کی قیادت کی لاڈلی رہی ہے کہ کبھی ناصر زیدی صاحب اور کبھی ابراہیم خان صاحب کی سربراہی میں اس کے پاس خیر سگالی کے وفود بھیجے جاتے ہیں اور وہ تمام تر امیدوں کے باوجود کے یو جے کو کلین چٹ دے جاتے ہیں۔ اس مرتبہ ایک بار پھر ایبٹ آباد ایف ای سی میں کے یو جے کی طرف سے تنظیمی کارڈز کے اجراء کو لے کر کارروائی کا فیصلہ کیا گیا جبکہ پی ایف یو جے کی یہ روایت رہی ہے کہ کسی یو جے کی نمائندگی نہ ہونے پر اس کے خلاف کوئی معاملہ زیرِ غور نہیں لایا جاتا۔ یہاں اس معاملے پر کراچی کے دیگر ایف ای سی ارکان کے طرزِ عمل کو دیکھا جائے تو مجھے انتہائی محترم جاوید چوہدری صاحب کی اس صورتحال پر خاموشی پر انتہائی دکھ ہے، جاوید چوہدری ان محدودے افراد میں سے ایک ہیں، جنہوں نے ہمیشہ آئین کو مقدم رکھا، شخصیات سے اختلاف میں کبھی آئین کو روندنے کی انہوں نے حمایت نہیں کی انہیں شخصیات اور تنظیموں میں فرق بخوبی معلوم اور وہ اس کے پرچارک بھی رہے ہیں۔ افسوس اور دکھ یہی ہے کہ اب تک سوشل میڈیا پر پی ایف یو جے کے غیر آئینی اقدام پر ان کا کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا، ہوسکتا ہے اب وہ تھک گئے ہوں۔ دیگر کراچی کے ایف ای سی ارکان آئین کو سمجھتے ہی نہیں، اس لئے ان سے مجھے ایسی کوئی خوش فہمی نہ پہلے تھی نہ ہی آئندہ کیلئے توقع، یہاں یہ بھی ذکر کرتا چلوں کہ ایبٹ آباد ایف ای سی میں کراچی کے ایک بطور مبصر شریک رکن کو بولنے کا بھرپور موقع دیا گیا، جبکہ ایف ای سی میں سوائے ممبرز کسی اور کو بات کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ سب سے بڑی ستم ظریفی یہ ہے کہ اس آئین شکن پی ایف یو جے کے اقدام پر جو بغلیں بجا رہے ہیں اور غیر ائینی ایڈہاک کمیٹی کے چیئرمین کو مبارکباد دے رہے ہیں، ان کی بلے بلے کر رہے ہیں، سوشل میڈیا پر ارشد انصاری کا نوٹیفکیشن پوسٹ کر رہے ہیں، انہوں نے ارشد انصاری کے دستخط کے ساتھ تاریخ اجراء پر دھیان ہی نہیں دیا، جو 24 دسمبر 2023 ہے، یعنی غیر آئینی چیئرمین کو ابھی پکنے میں مزید 20 دن درکار ہیں۔
آئین کی پاسداری ہم سب کیلئے مقدم ہے، آج جو کے یو جے کیخلاف پی ایف یو جے کے اس خلاف آئین اقدام پر خوشیاں منا رہے ہیں، انہیں پتہ ہے کہ وہ کبھی الیکشن میں جیت کر نہیں آسکتے، حالانکہ ووٹرز لسٹ انہی کی بنائی ہوئی ہے۔
ہونا یہ چاہئے تھا کہ اس خلاف آئین اقدام کے پیچھے اصل عزائم کو سمجھا جاتا، اس کی حمایت سے ببانگ دہل انکار کیا جاتا، اس کو منتخب باڈی کیخلاف اقدام کی جگہ کے یو جے کیخلاف اقدام تصور کیا جاتا، نادان دوستوں نے اس اقدام کو قبول کر کے اور اس پر ساتھ دے کر پی ایف یو جے کو غیر آئینی اقدامات کیلئے ایک مضبوط جواز فراہم کردیا ہے، جس کا خمیازہ کل یہ بھی بھگتیں گے۔ جو کام آج کے یو جے کے ساتھ ہوا ہے، اب کل اس کا نشانہ پی یو جے، آر آئی یو جے، خیبر، کوئٹہ اور دیگر بھی بنیں گی۔ شخصیات پرستی کی بجائے آئین پرستی سے تنظیمیں مضبوط ہوتی ہیں، کاسہ لیسی اور جی حضوری سے تنظیمیں کمزور، ہماری تو تاریخ موجود ہے، دستوری، رانا عظیم گروپ، شوکت پرویز گروپ۔ اب ہوش نہ کیا تو تاریخ سے مٹ جائیں گے۔(نعیم کھوکھر)۔۔