خصوصی رپورٹ۔۔
قاضی صاحب سے پہلے جس زمانے میں عدالتی کارروائی براہِ راست نشر نہیں ہوتی تھی، بالخصوص عدالتی رپورٹروں کا کام بہت اہم تھا کیونکہ عام لوگوں کو عدالتی کارروائی کے متعلق وہی بتاتے تھے کہ اندر کیا بحث چل رہی ہے، کیا سوالات ہوئے، کیا جوابات ملے، کس نوعیت کے ریمارکس پاس کیے جارہے ہیں، کون سا جج کس طرف جارہا ہے، وغیرہ۔
عدالتی کارروائی براہِ راست نشر کرنے سے ان میں سے بعض رپورٹروں کو یقیناً مسائل کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ اب جو کچھ ہورہا تھا وہ سب کو براہِ راست نظر آرہا تھا۔ اس لیے بعض رپورٹروں کی تلملاہٹ قابلِ فہم تھی، لیکن کئی رپورٹر ایسے بھی تھے جنھوں نے خود کو نئی صورتحال کے ساتھ ایڈجسٹ کرلیا اور انھوں نے کچھ نیا کردکھانے کی کوشش کی۔
اس کچھ نیا کردکھانے کی کوشش میں سب سے اہم پہلو یہ تھا کہ اپنے ناظرین کو ”اندر کی خبر“دینے کے دعوے کریں۔ حقیقت یہ ہے کہ بعض رپورٹروں کو اس میں کامیابی ملی بھی اور بعض اوقات کوئی بات ہمارے علم میں نہیں ہوتی تھی لیکن کچھ رپورٹر اس کی خبر پہلے ہی سے دے دیتے۔ بعض اوقات کوئی رپورٹر مجھ سے خبر لینے کی کوشش کرتا تو میں اس کو کہتا کہ یار آپ کو کچھ معلوم ہو تو مجھے بھی بتائیں، اور یقین کریں کہ بعض اوقات واقعی ایسا ہوا کہ کوئی خبر، بلکہ کوئی دستاویز، جو ابھی چیف جسٹس کے آفس تک نہیں پہنچی ہوتی تھی وہ میرے اس طرح کے سوال پر کسی رپورٹر نے مجھے بھیج دی!
البتہ ایسے رپورٹروں نے دوسرے رپورٹروں کےلیے مشکلات پیدا کرلیں کیونکہ اب ”اندر کی خبر“ نکالنے کی دوڑ شروع ہوگئی اور اس دوڑ میں بارہا ایسا ہوا کہ جھوٹی خبر پھیلائی گئی، بلکہ پہلے خبر گھڑی گئی، پھر پھیلائی گئی، پھر کہا گیا کہ اگر جھوٹی خبر ہے، تو تردید کیوں نہیں کی جارہی، پھر اگر تردید بھی ہوئی، تو کہا گیا کہ یہ تردید ناقابلِ قبول ہے، وغیرہ۔
ایسا ہی ایک افسوس ناک واقعہ یہ ہے کہ جب اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججوں کے خط کے بعد صورتحال بہت سنجیدہ ہوگئی تھی اور رپورٹر ”اندر کی خبر“ کی کھوج میں لگ گئے، تو ایک رپورٹر نے ”خبر بریک کی“ کہ 5 جج چیف جسٹس کے دفتر میں پہنچ گئے ہیں اور وہ چیف جسٹس پر سو موٹو نوٹس لینے کےلیے دباؤ ڈال رہے ہیں۔ ایک رپورٹر نے تو چیف جسٹس کی اہلیہ کو بھی ججوں کی مشاورت میں شامل کرلیا۔ میں نے یہ ”خبر“ دیکھی، تو مذکورہ رپورٹر کو میسج کیا کہ میں دفتر میں ہوں اور یہاں نہ چیف جسٹس کی اہلیہ پائی جاتی ہیں، نہ ہی مذکورہ 5 جج موجود ہیں۔ اس نے کہا، اچھا، تو پھر ان کے ساتھ ”غیر رسمی مشاورت“ ہوئی ہوگی۔ میں نے کہا کہ ایسی ”غیر رسمی مشاورت“ کا تو پھر آپ کو ہی علم ہوگا، لیکن آپ کی ٹویٹ چیف جسٹس کے دفتر میں ”اس وقت جاری ملاقات“ کی بات بتارہی ہے۔ جواب ندارد۔ اور ہاں ٹویٹ حذف بھی نہیں ہوئی۔
ایسے ہی ایک رپورٹر نے قاضی صاحب کی ایکسٹنشن لینے کی خبر بریک کی، پھر کچھ عرصہ اس پر ”تردید کیوں نہیں کی جاتی“ کا سوال اٹھاتے رہے، پھر آخر کہہ دیا کہ نہیں ایکسٹنشن نہیں لے رہے، تب میں نے ایک دن انھیں کمرۂ عدالت میں عدالتی کارروائی شروع ہونے سے قبل کہا کہ اتنا گھما پھرا کر اس حد تک آنے کے بجائے آپ مجھ سے پوچھ لیتے، تو میں آپ کو بتادیتا کہ میں نے بھی، اور قاضی صاحب کی اہلیہ نے بھی، ”آزادی کاؤنٹر“ رکھا ہے اور ہم ہر دن حساب رکھتے ہیں کہ 405 دنوں میں کتنے دن گزر گئے اور کتنے رہتے ہیں۔ اسے حیرت ہوئی، تو میں نے کہا اگر آپ میری تعیناتی کا نوٹی فیکیشن ہی دیکھ لیتے، تو اس میں بھی آپ کو نظر آتا کہ سپریم کورٹ میں میری تعیناتی 17 ستمبر 2023ء سے 25 اکتوبر 2024ء تک ہے اور شاید یہ اپنی نوعیت کا واحد نوٹی فیکیشن ہو جس میں تعیناتی کے ساتھ رخصتی کی تاریخ بھی لکھی ہو۔ کچھ شرمائےاور پھر کہا کہ ہاں مجھے پوچھنا چاہیے تھا۔ لیکن مجال ہے کہ اس کے بعد بھی کوئی خبر ”بریک کرنے“ سے قبل اس کی تصدیق کی کوشش کی ہو۔اس طرح کی اور بھی کئی دلچسپ اور افسوسناک کہانیاں ہیں۔
کچھ اچھی کہانیاں بھی موجود ہیں۔
مثلاً ایک رپورٹر نے دوسروں کی دیکھا دیکھی ٹویٹ کی کہ قاضی فائز عیسیٰ نے سرکاری خرچ پر عشائیہ لینے سے تو انکار کیا تھا، لیکن اب ظہرانہ لے رہے ہیں۔ میں نے انھیں میسج کیا کہ بھائی، ظہرانہ جسٹس آفریدی اور دیگر جج اپنی جیب سے دے رہے ہیں۔ انھوں نے فوراً معذرت کی اور مذکور ٹویٹ حذف کرکے نئی ٹویٹ میں تصحیح بھی کردی۔سچ پوچھیں تو مجھے ان بے چارے رپورٹروں پر ترس بھی آتا ہے کیونکہ جب ان کے اخبار کی ملکیت تبدیل ہوجائے، مثلاً ملک ریاض خرید لے، تو ظاہر ہے کہ اسی اخبار میں نوکری برقرار رکھنے کےلیے قبلہ تبدیل کرنا تو پڑتا ہے۔(ڈاکٹر محمد مشتاق سابق سیکرٹری چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ)
(یہ تحریرسوشل میڈیا سے لی گئی ہے جس کا مقصد کسی کی دل آزادی یا تضحیک نہیں، بلکہ اپنے قارئین کی آگہی کے لئے اسے پیش کیاجارہا ہے، جس کے مندرجات سے عمران جونیئر ڈاٹ کام اور اس کی پالیسی کا متفق ہونا ضروری نہیں)۔۔