تحریر: ایاز امیر۔۔
ہمارے مسائل یعنی ہماری بیماریاں پرانی ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ اب تو دائمی شکل اختیارکرچکی ہیں۔ان بیماریوں کا بار بار ذکر کرنے سے کیا حاصل۔کرپٹ معاشرہ ہے ہمارا‘ اوپر سے لے کر نیچے تک کرپشن ہر نس نس میں سرایت کر چکی ہے۔نالائق لوگ تو ہم ہیں ہی لیکن ہمارا حکمران طبقہ نالائقی کی ہرحد پارکرچکا ہے اورا س سے کسی قسم کی امید لگانا عبث ہے۔میں اکثرذکر کرتا ہوں کہ 1965ء کی جنگ نے ہمیں مروا دیا ۔ 1971ء کا سانحہ نہیں ہونا چاہئے تھا‘ ہمارے افلاطونوں کو اتنی سمجھ ہونی چاہئے تھی کہ اپنے لوگوں پر ہی چڑھائی نہیں کی جاتی۔ افغان جہاد کے نام پر جو کچھ ہوا اُس نے ہمارے معاشرے کی شکل بگاڑ دی۔ جنرل ضیا کے اپنے کارنامے تھے لیکن اُنہی کو موردِ الزام کیوں ٹھہرائیں‘ اُن کے بعد بھی جو آئے اپنی جیبیں تو اُنہوں نے ضرور بھریں اور اپنی عاقبت سنوار گئے لیکن ہر ایک قوم کو پہلے سے زیادہ بری حالت میں چھوڑکر گیا۔یہ سب چیزیں ہم جانتے ہیں ‘ ان تباہیوں کی مہریں ہمارے سینوں پر لگی ہوئی ہیں لیکن باربار یہی راگ الاپنے کا کیا فائدہ۔دائمی بیماریوں کا ذکر کرتے رہیں تو بیماریاں ختم تو نہیں ہوتیں۔
اس لیے التجا ہے کہ اس معاشرے کے مسائل تو کسی نے آکر حل کرنے نہیں‘ کیوں نہ پھر کچھ نئی چیزیں کی جائیں۔نئی کا یہ مطلب نہیں کہ یہاں کوئی انقلاب لے کر آئے ‘ یہ اتنی قحط زدہ زمین ہو چکی ہے کہ کسی بنیادی تبدیلی کے قابل نہیں رہی۔نئے کا مطلب ہے کہ معاشرے کو کچھ جھنجھوڑا جائے ۔ نئی سوچ تو یہاں پیدا ہونی نہیں۔ خان صاحب کے ہی نعرے کو لے لیں ‘ حقیقی آزادی والا نعرہ۔ سوائے لفاظی کے اس نعرے کا مطلب کیا ہے؟حقیقی آزادی معاشی انقلاب سے آتی ہے جب اوپر اور نیچے طبقات کے درمیان فرق تھوڑا کم ہو اور وسائل کی منتقلی نیچے کی طرف ہونے لگے۔ خان صاحب نے تو یہ عندیہ کبھی دیا ہی نہ تھا کہ وہ ایسا کرنا چاہتے ہیں۔اُن کے دائیں بائیں بھی سیٹھ لوگ ہوا کرتے تھے‘ خاص طور پر زمین کا کاروبار کرنے والے ۔ ان لوگوں سے کبھی توقع کی جاسکتی ہے کہ یہ معاشرے کو ہلا دیں گے اور وسائل کی منتقلی اوپر سے نیچے کریں گے؟ لیکن اگر یہاں سوچ نہیں بدلنی اور اقتدار کے نام پر وہی ناٹک چلتے رہنے ہیں تو کم از کم کچھ عادات تو بدلیں‘ کچھ نئی ادائیں تو معاشرہ سیکھے۔
ایک تو اس معاشرے میں سیاسی جبر ‘ اُسی کی چلتی ہے جو اثر ورسوخ رکھتا ہو۔ پھر یہاں معاشی جبر ‘ بیچارے عوام کا تو خواہ مخواہ نام لیا جاتا ہے‘ کوئی بیوقوف ہی یہ بات نہ سمجھے کہ یہ ملک بااثر طبقات کیلئے بنا ہے۔ لیکن سیاسی اور معاشی جبر کے ساتھ یہاں معاشرتی جبر بھی ہے۔ دبے ہوئے ہمارے عوام تو ویسے ہی ہیں لیکن اوپر سے اخلاقیات کا ظلم کہ یہ نہیں کرسکتے وہ چیز ممنوع ہے ۔اوپر کے طبقات کیلئے کچھ ممنوع نہیں ‘ اُن کیلئے ہر آزادی میسر ہے ‘ جو چاہیں کریں کوئی پوچھنے والا نہیں۔لیکن ذرا نیچے دیکھیں توٹریفک وارڈن کسی بڑی گاڑی کو کبھی نہیں روکے گا‘ اُس کا زور بس موٹر سائیکل والوں پر چلتا ہے۔اندھیرے میں موٹر سائیکل یا رکشہ پر سواری کررہے ہوں تو پولیس ناکوں پر شک کی نگاہ سے دیکھے جائیں گے۔ یہاں پراگر فرانسیسی انقلاب نہیں آنا اور ہم لکھ کے دے دیتے ہیں کہ فرانس قسم کا انقلا ب یہاں کبھی نہیں آئے گا‘ تو کم از کم شخصی آزادی میں تو کوئی رکاوٹ نہیں ہونی چاہئے۔یہاں ہم نے پتا نہیں کون سے پیمانے بنائے ہیں لیکن ان پیمانوں کے تحت ایک جبر والا معاشرہ قائم ہوا ہے۔غریب آدمی بیچارہ کہیں ویسے کسی تھانے میں بھٹک آئے سوال جواب تو شاید بعد میں ہو لیکن ایک آدھ منہ پر ویسے رسید کردیتا ہے۔ بلاوجہ ‘ بس یہ دستورِ پُلس ہے کہ جو غریب تھانے آیا اُسے ذلیل ہی ہونا ہے۔صاحبِ استطاعت آپ ہوں تو پھر یوں سمجھئے کہ تھانہ آپ کی نوکری پر لگ جائے گا۔دیگر قسم کی حقیقی آزادی اس معاشرے کو مت دیں لیکن یہ بیکار کا جبر تو ختم ہو۔
معاشی استحصال اور معاشی جبر دیگر معاشروں میں بھی ہوتا ہے لیکن وہاں شخصی آزادی تو ہوتی ہے۔ہفتے کا اختتام ہو تو لوگ تفریح گاہوں کا رُخ کرتے ہیں۔مہنگی جگہوں سے لے کر جیبوں پر کم بھاری پڑنے والی جگہوں تک ہرایک کیلئے کچھ نہ کچھ تفریح کا سامان موجود ہوتا ہے۔ نظریات کے نام پریہ عجیب معاشرہ ہم نے تشکیل دے دیا ہے کہ خواص کیلئے تو سب کچھ ہے لیکن نیچے طبقات کو پھونک پھونک کر چلنا پڑتا ہے۔ یہ ناانصافی تو کم از کم نہیں ہونی چاہئے۔جو ملکی وسائل پر قابض ہیں پارسائی کے وعظ اُن کو سنائے جائیں‘ جن کے پاس کچھ ہے ہی نہیں ‘جو بجلی کے بل ادا کرنے سے قاصر ہیں ‘جنہیں موٹرسائیکلوں میں تیل ڈالوانا ہو تو دلوں میں دھڑکا لگ جاتا ہے‘ اُنہیں پارسائی کی مار تو نہ دیں۔
یہاں کسی چیز نے ٹھیک نہیں ہونا‘ کسی نے نہیں سدھرنا ‘ جن کے خلاف منی لانڈرنگ کے کیس بنتے ہیں اُنہوں نے بَری ہی ہونا ہے‘ کسی بڑے آدمی کو سزا نہیں ہونی تاوقتیکہ ریاست کی یہ مصلحت نہ بن جائے کہ فلاں مقصد کے لیے فلاں شخص کو سزا دینی ہے۔مان لیا یہی اس معاشرے کا دستور ہے اور چیزوں نے ایسے ہی رہنا ہے‘ لیکن پھر حضورِوالا نصیحت اور تلقین پرتو زورکچھ کم رکھیے۔ لوگوں کو سانس لینے کی آزادی تودیں۔ تمام سامانِ عشرت بڑے لوگوں کے لیے ‘ کوئی نیچے کے طبقات میں ہفتے میں ایک یا دو بار غم مٹانا چاہے تو بس احتیاط ہی کرتا رہے۔ یہ تو نہیں ہونا چاہئے۔
جن معاشروں میں شخصی آزادی نہ ہواور ذاتی روشوں یا عادات پر پابندیاں نافذ ہوں وہ معاشرہ آزاد نہیں کہلا سکتا ۔اُس معاشرے کے لوگ ذہنی اعتبار سے کُبڑے رہ جاتے ہیں۔اُن کی آنکھوں میں وہ چمک نہیں ہوتی جو آپ آزاد معاشروں میں دیکھ سکتے ہیں۔یورپ یا امریکہ کے کسی ریستوران میں آپ کسی ویٹر سے بدتمیزی کرکے تودیکھیں‘ ایسا جواب ملے گا کہ ہوش ٹھکانے آ جائیں گے۔یورپ اور امریکہ میں جو ہاتھ سے کام کرتے ہیں اُن کی تنخواہیں اچھی بھلی ہوتی ہیں۔شام کو کسی تفریح گاہ میں آپ گئے تو کوئی پتا نہیں چلتا کہ فلاں مزدور ہے یا کوئی اور۔ لوگوں میں عزتِ نفس ہوتی ہے۔ جہاں تھانوں میں خواہ مخواہ کے منہ پر پھٹکار پڑیں وہاں کون سی عزتِ نفس رہ جاتی ہے؟
پھر ہم کہتے ہیں کہ لوگ یہاں چھوڑ کر باہر جارہے ہیں۔ کمزور طبقات والوں کیلئے یہاں رکھا ہی کیا ہے کہ وہ یہاں رہیں؟بے روزگاری عروج پر ہے ‘ کمزور طبقات کو ایک طرف رکھیے مہنگائی نے مڈل کلاس کی کمر توڑ کے رکھ دی ہے۔وقتاًفوقتاً یہاں یہ ناٹک کیے جاتے ہیں کہ مفت آٹا دے رہے ہیں ‘لوگ بیچارے لائنوں میں لگ جاتے ہیں اور لائنوں کی الگ ذلت و خواری اُنہیں برداشت کرنی پڑتی ہے۔ جو انسان تین یا چار گھنٹے کسی ٹرک یا یوٹیلیٹی سٹور کے سامنے آٹے اور تیل کے لیے لائن میں کھڑا رہے اُس کی کوئی عزتِ نفس بچتی ہے؟ قوم کے ایک بڑے حصے کو بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام پر لگا دیا ہے۔ بڑوں پر ٹیکس نہیں لگانے ‘ جائیدادوں پر ٹیکس نہیں لگانے۔ جائیدادوں پر ایک ویلتھ ٹیکس ہوا کرتا تھا ‘ نوازشریف پہلی بار وزیراعظم بنے تو ویلتھ ٹیکس ختم کر دیا۔ آج تک بحال نہیں ہوسکا۔
اس قوم کی بدقسمتی کہ اس وقت اس پر براجمان وہ لوگ ہیں جن کی شکلیں دیکھ دیکھ کر قوم تنگ آ چکی ہے۔دو دو تین تین بار یہ چیف منسٹر رہ چکے ہیں ‘ نوازشریف تین بار وزیراعظم رہے ہیں اور اب چوتھی بار کو تَک رہے ہیں۔ ان لوگوں سے کیا امید باندھی جا سکتی ہے؟(بشکریہ دنیانیوز)