sach ya kahani farz kahani

 کچھ کہہ بھی نہیں سکتے۔۔۔

تحریر: سید بدرسعید

کراچی کا  ایک اینکر گزشتہ دنوں اپنے  بزنس پارٹنر  کے  ہاتھوں قتل ہوا ۔ بتایا جاتا ہے کہ لین دین کا یہ معاملہ تین سو کروڑ تک پہنچ چکا ہے اور اس کے متاثرین کی تعداد  کم از کم سو افراد تک ہو چکی ہے۔ یہ کہانی کچھ لوگوں کے لیے نئی نہیں ہے ۔ ایسی کئی کہانیاں میڈیا منڈی میں گردش کرتی رہتی ہیں ۔ ہمارے یہاں نیوز سکرین پر اصل شہرت پروگرام اینکرز کو ملی جس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ یہ منجھے ہوئے پرانے صحافی تھے ۔ سیاست اور دیگر امور کو بہتر انداز میں سمجھتے تھے ۔ ان کی طرح پبلک فیم کے چکر میں ایک دوسری کلاس نیوز اینکر یا نیوز کاسٹر کے طور پر سامنے آئی ۔ بدقسمتی سے چند ایک کے سوا ان کی اکثریت پبلک  فگر نہیں بن سکی ۔ یہ بنیادی طور پر صحافیوں میں بھی شمار نہیں کئے گئے ۔ ان کی تنخواہیں بھی معروف اینکرز کی طرح لاکھوں میں نہ ہو سکیں لیکن سچ یہ ہے کہ یہ سکرین پر نظر آتے ہیں ۔ جو لوگ انہیں جانتے ہیں وہ انہیں طاقتور صحافی سمجھنے لگے حالانکہ یہ اپنی مرضی سے ایک جملہ بھی نہیں بول سکتے تھے ۔ بہرحال یہاں سے میڈیا انڈسٹری میں ایک نئی کہانی شروع ہوئی ۔ شوبز اور سکرین کی شو شا نے نیوز اینکرز میں یہ احساس پیدا کیا کہ ان کے پروگرام اینکرز جیسے تعلقات نہیں ہیں ۔ انہوں نے پبلک ریلیشنز کی جانب توجہ دی تو مارکیٹ میں بیٹھے کچھ ”سیانوں”  نے انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا اور اپنی اپنی تنظیموں کی رونق بڑھانے لگے  ۔ ان کی سکرین بیوٹی کو کیش کروایا گیا اور اینکرز کی ایک بڑی تعداد معمولی فائدہ اٹھانے  کے لیے لوگوں کے اعتماد سے کھیلنے لگی ۔ کسی نے انہیں بیرون ملک کے سستے دوروں پر لگا دیا اور یہ سینئر صحافیوں کی طرز پر بیرون ممالک دورے کا رعب ڈالنے کے لیے اس چکر میں پھنس گئے ، ان کی بیرون ممالک دورے کی  تصاویر کی بنیاد پر اصل کھلاڑی نے مزید شکار گھیر لیے ، کچھ نیوز اینکرز کھلاڑیوں کے لیے شکار گھیر کر لانے لگے ۔ کہیں  یہ ہوا کہ دو نمبر دھندوں  میں ان کی انویسٹمنٹ کروائی گئےاور پھر مزید ”شکار” لانے پر حصہ دیا جانے لگا۔ وہ نیوز اینکر جو سٹوڈیو میں کام کرنے کی وجہ سے کسی سیاست دان سے تعلق نہ رکھتے تھے انہیں بطور خاص سیاست دانوں اور بیوروکریسی کے ساتھ بٹھایا گیا ۔ لوگ ان کو دیکھ کر ایسے معاملات کا حصہ بنتے گئے جو مناسب نہ تھے ۔ بتایا جاتا ہے کہ کراچی کا اینکر بھی ایسے ہی ایک  معاملے میں ملوث تھا جس میں اب کئی بڑے نام سامنے آ رہے ہیں ۔ ایک اور دھندے میں اراکین اسمبلی تک لالچ میں آ کر اپنے پیسے پھنسا چکے  ہیں ۔ نیوز  اینکرز کو ساتھ ملا کر بلکہ شو پیس بنا کر اب کئی بڑے دھندے ہو رہے ہیں ۔ گیم ریاست کی حد سے ریاستوں کے ساتھ کھیلنے تک پہنچ چکی ہے ۔ فراڈز لاکھوں سے کروڑوں تک کا سفر کر چکے ہیں ۔ ابھی ایک  قتل کی وجہ سے ایک  گیم سامنے آئی ہے ۔ میڈیا منڈی میں ایسے کئی کھیل دیدہ دلیری سے کھیلے جا رہے ہیں ۔ اصل کھلاڑی سامنے نہیں آتے ، جو سامنے ہیں انہیں آپ پکڑ نہیں سکتے کیونکہ وہ سارا لیں دین انہی نیوز اینکرز کے ذریعے کرتے ہیں ، آپ نے نہ ان کو رقم دی اور نہ آپ ان کا فراڈ ثابت کر سکتے ہیں ۔ جس نے رقم لے کر آگے پہنچائی وہ پھنس بھی جائےتو اصل کھلاڑی کو فرق نہیں پڑتا ۔ ایسے ہی دوستوں کی  رقم لے کر آگے پہنچانے والا ایک اینکر قتل ہو چکا ہے ، اس کا قاتل بھی اصل کھلاڑی نہیں ہے ۔ اگر اس صورت حال پر قابو نہ پایا گیا تو چند ماہ میں ایسے مزید واقعات رونما ہو سکتے ہیں کیونکہ اس وقت مارکیٹ میں کروڑوں روپے داؤ پر لگے ہوئے ہیں اور المیہ یہ ہے کہ انویسٹر بول بھی نہیں سکتے کیونکہ دھندے دو نمبر ہیں  ۔ سینئر صحافی ایک عرصہ اس دشت میں آبلہ پا پھرنے کے بعد سکرین پر آئے تھے، وہ ایسے جال میں نہیں پھنسے لیکن ڈائریکٹ سکرین پر بیٹھ جانے والوں اور شارٹ کٹ مارنے والوں  کی  اکثریت اب  خوفناک جال میں پھنس چکی ہے (سید بدر سعید )

(سید بدرسعید کا شمار لاہور کے باخبر صحافیوں میں ہوتا ہے، ان کی تحریرمیں کئی انکشافات ہیں لیکن عمران جونیئر ڈاٹ  کام اور ا س کی پالیسی کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں، علی عمران جونیئر)۔۔

How to Write for Imran Junior website
How to Write for Imran Junior website
Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں