khusra qanoon | Imran Junior

کچھ علاج اس کا بھی

تحریر : علی عمران جونیئر

دوستو،گزشتہ ہفتے ایک کالم سیاست کے حوالے سے لکھا ،کافی اچھا فیڈ بیک ملا، اکثریت کا کہنا تھا کہ ہفتے میں ایک آدھ تحریر اسی ٹائپ کی ہونی چاہئے، ہم کوشش کریں گے وعدہ نہیں کرتے کیوں کہ سیاست کی وجہ سے خاندان تقسیم ہوجاتے ہیں، گجرات کے چودھری خاندان کی مثال آپ لوگوں کے سامنے ہے۔۔گزشتہ ہفتے ہی ایک کالم میں ہم نے عمران خان اور ان کے دور حکومت کے حوالے سے کسی صاحب کی واٹس ایپ پر موصول ہونے والی تحریر شیئر کی تھی، اب ہمیں ایک اور واٹس ایپ تحریر ملی ہے، جس میں پہلے والی تحریر کا جواب دیا گیا ہے۔۔ ہمارے نامعلوم دوست لکھتے ہیں کہ ۔۔ عمران خان نے واقعی اپنے دور حکومت میں وہ کام کئے جو ستر سال میں کوئی اور نہیں کرسکا۔۔ پیٹرول 70 سال میں 80 روپے پر پہنچا لیکن 3 سال میں 150 روپے پر پہنچ گیا۔۔ قرضہ 70 سال میں 25 ہزار ارب روپے پر پہنچا لیکن 3 سال میں 45 ہزار ارب روپے پر پہنچ گیا۔۔ ڈالر 70 سال میں 105 روپے پر پہنچا لیکن 3 سال میں 175 روپے پر پہنچ گیا۔۔ چینی فی کلو 70 سال میں 55 روپے پر پہنچی لیکن 3 سال میں 125 روپے پر پہنچ گئی۔۔ گھی فی کلو 70 سال میں 170 روپے پر پہنچا لیکن 3 سال میں 360 روپے پر پہنچ گیا۔۔ آٹا فی کلو 70 سال میں 35 روپے پر پہنچا لیکن 3 سال میں 70 روپے پر پہنچ گیا۔۔ سونا فی تولہ 70 سال میں 50 ہزار روپے پر پہنچا لیکن 3 سال میں ایک لاکھ 40 ہزار روپے پر پہنچ گیا۔۔ کشمیر 70 سال متنازع رہا لیکن 3 سال میں بھارتی ریاست بن گیا۔۔ ڈی اے پی کھاد فی بوری 70 سال میں 3500 روپے پر پہنچی لیکن 3 سال میں 7000 روپے پر پہنچ گئی۔۔ جو دوائی 70 سال میں 110 روپے پر پہنچی وہ 3 سال میں 330 روپے پر پہنچ گئی۔۔ بجلی فی یونٹ 70 سال میں 8 روپے پر پہنچی لیکن 3 سال میں 21 روپے پر پہنچ گئی۔۔ گیس کا جو بل 70 سال میں 300 روپے پر پہنچا وہ 3 سال میں 4800 روپے پر پہنچ گیا۔۔ جو گاڑی 70 سال میں 10 لاکھ پر پہنچی وہ 3 سال میں 20 لاکھ پر پہنچ چکی ہے ۔۔ جو موٹرسائیکل 70 سال میں 95 ہزار روپے پر پہنچی وہ 3 سال میں ایک لاکھ 50 ہزار روپے پر پہنچ گئی۔۔ تعلیم یافتہ طبقہ میں بیروزگاری 3 فیصد تھی اب 16 فیصد پر آ گئی ہے۔۔

ایک پولٹری فارم کے مالک نے اپنے دوست سے کہا۔۔جب بھی سیلاب آتا ہے، میرے سیکڑوں چوزے ڈوب کر ہلاک ہوجاتے ہیں، تم ہی بتاؤ میں کیا کروں؟۔۔دوست نے تھوڑی دیر سوچنے کے بعد اسے مشورہ دیا۔۔تم بطخیں کیوں نہیں پال لیتے،وہ پانی میں ڈوبتی ہی نہیں۔۔ اللہ ایسے مشورے دینے والے دوستوں سے سب کو محفوظ رکھے۔۔ کسی کی مرغی بیمار ہوگئی،اس نے منت مانگی ،مرغی ٹھیک ہوگئی تو اس خوشی میں بکرا صدقہ کردیا۔۔اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ پولٹری فارم اور مرغی کی باتیں کیوں کی جارہی ہیں ؟ کیا یہ کسی سیاسی شخصیت پر طنز کیا جارہا ہے یا پھر اس کا مذاق اڑایاجارہا ہے؟ ایسا سوچنے والوں کا علاج حکیم لقمان تو کیا موجودہ دور کے کسی ڈاکٹر کے پاس بھی نہیں ہوسکتا۔۔ ڈاکٹروں پر یاد آیا۔۔جب اسٹیتھو سکوپ ایجاد نہیں ہوا تھا تو ڈاکٹر اپنا سر مریض کے سینے سے لگا کر مریض کی دھڑکن سنا کرتے تھے۔۔ رینی لینینک وہ پہلا ڈاکٹر تھا جس نے 1816 میں صرف اس لئے اسٹیتھو سکوپ ایجاد کیا کہ اسے ایک عورت کے سینے سے کان لگاتے ہوئے جھجھک محسوس ہوئی ۔۔اگر اسٹیتھو سکوپ ایجاد نہ ہوتا تو آج پاکستان کے 90% لڑکے ڈاکٹر ہوتے۔۔ امریکا کے ایک ہسپتال میں ڈاکٹر نے وارڈ میں گھستے ہوئے کہا۔۔مسز کمیلا ،میں آپ کو خوشی کی ایک خبر سنانا چاہتا ہوں۔بیڈ پر لیٹی مریضہ جلدی سے بولی۔۔ میں مسز کمیلا نہیں بلکہ مس کمیلا ہوں۔۔ڈاکٹر نے مریضہ کو گھورا اور پھر آہستہ سے بولا۔۔ تب تو مجھے آپ کو بہت بری خبر سنانا پڑے گی۔

آج کچھ باتیں ڈاکٹروں کی کرلیتے ہیں۔۔ دل کے مریض کا آپریشن ہونے والا تھا، مریض بہت گھبرایا ہوا تھا،نرس نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا۔ ’’تمہیں گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ ڈاکٹر صاحب کو تمہارے آپریشن میں کوئی دقت پیش نہیں آئے گی۔ انہوں نے کل ہی ٹی وی پر بالکل اسی قسم کا آپریشن ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔‘‘۔۔ ایک بچے کی یادداشت بہت کمزور تھی علاج کے لئے ڈاکٹر بلوایا گیا۔ جب ڈاکٹر دوا دے کر چلا گیا تو تھوڑی دیر بعد دروازے کی گھنٹی بجی پوچھا گیا کون ہے؟۔۔ ملازم نے جواب دیا۔۔ ڈاکٹر صاحب اپنا بیگ بھول گئے تھے وہ لینے آئے ہیں۔۔نشے میں جھومتا جھامتا ایک نوجوان کلینک میں داخل ہوااور ڈاکٹر کے قریب رکھی کرسی پر بیٹھ گیا۔۔ڈاکٹر نے اس کی حالت دیکھی تو بولا۔۔ ’’اس وقت یہ اندازہ لگانا کہ تمہیں کون سی بیماری ہے، ذرا مشکل ہے۔ میرے خیال میں یہ نشے کی وجہ سے ہے‘‘۔نوجوان کرسی سے اٹھتے ہوئے کہنے لگا۔۔ بہت اچھا ڈاکٹر صاحب،میں اب اس وقت آؤں گا جب آپ نشے میں نہیں ہوں گے‘‘۔راہ چلتے ہوئے ایک آدمی گر کے بے ہوش ہو گیا۔اسے اٹھا کر ہسپتال کے جایا گیا۔ڈاکٹروں نے اسکا معائنہ کیا اور آپریشن کی تیاریاں کرنے لگے۔آپریشن کے لیے جب اس کے کپڑے اتارے گئے تو انہوں نے اسکے سینے پر ایک کاغذ بندھا دیکھا۔کاغذ پر لکھا تھا۔۔میں مرگی کا مریض ہوں اور اس وقت مجھے مرگی کا ہی دورہ پڑا ہے۔خدا کے لیے میرا کوئی آپریشن نہ کیجئے گا۔میرا پہلے ہی دو مرتبہ اپنڈکس کا اور ایک مرتبہ گردوں کا آپریشن خوامخواہ کیا جا چکا ہے۔۔۔ایک مریض بے صبرے اور غصہ ور ڈاکٹر کو اپنے درد کے متعلق تفصیل سے بتا رہا تھا۔۔درد میرے داہنے کندھے میں ہوتا ہے۔ جیسے ہی میں آگے کو جھک کر اپنا داہنا ہاتھ اور بایاں ہاتھ پھیلاتا ہوں،کہنیاں الٹا کر کندھے جھکاتا ہوں اور پھر جب سیدھا کھڑا ہوتا ہوں تو میرے داہنے کندھے میں درد ہونے لگتا ہے۔۔ڈاکٹر اس کی اتنی طویل گفتگو سن کر بیزاری سے بولا۔۔اور تمہیں یہ خیال کبھی نہیں آیا کہ تم اس پُر اسرار درد سے پیچھا چھڑا سکتے ہو۔ بشرطیکہ اپنے جسم کی ان بے ہودہ حرکات سے گریز کرو۔۔مریض نے ڈاکٹر کے سوال کو بہت دھیان سے سنا اور نہایت اطمینان بھرے لہجے میں کہنے لگا۔۔میں نے یہ بھی سوچا تھا ڈاکٹر صاحب۔۔ لیکن اوور کوٹ پہننے کا کوئی اور طریقہ میری سمجھ میں ہی نہیں آیا۔۔

اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔کسی نے سچ ہی کہا ہے کہ روپیہ پیسہ دیکھنے کے بعد انسان سب کچھ بھول جاتا ہے، اسی لئے اے ٹی ایم پہلے کارڈ دیتی ہے اور پھر پیسے۔۔ تاکہ آنے والا پیسے دیکھ کر کارڈ لینا ہی نہ بھول جائے۔۔ خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔

آزاد صحافت پر یقین رکھتے ہیں، گورنرپنجاب۔۔
آزاد صحافت پر یقین رکھتے ہیں، گورنرپنجاب۔۔
Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں