kuch channels par bhaand anchor person banagye

کچھ چینلزپر بھانڈ اینکرپرسن بن گئے۔۔

تحریر: الطاف حسن قریشی۔۔

ایک زمانہ تھا جب ہمیں خبریں اور سیاسی تجزیے صرف اخبارات اور ریڈیو پاکستان سے دستیاب ہوتے تھے۔ اخبارات کے ایڈیٹر چھان پھٹک کر خبریں شائع کرتے اور اِس بات کا خیال رکھتے کہ اخلاق سے گری ہوئی کوئی اسٹوری شائع نہ ہونے پائے۔ ریڈیو پاکستان جو حکومت کی تحویل میں تھا، اُسکا ہر پروگرام بہت نپا تُلا اور معیاری ہوتا۔ تلفظ کا خاص خیال رکھا جاتا۔ ہر مکالمہ تہذیب اور اَخلاق کے دائرے میں ادا کیا جاتا تھا۔ چوٹی کے ادیب، قلم کار اَور مشاہیر بصد شوق ریڈیو پر آتے اور اَعلیٰ معیار قائم کر جاتے۔ یہ اُصول طے تھا کہ ریڈیو پر جرائم کی رپورٹنگ نہیں کی جائیگی اور سنسنی پھیلانے والی کوئی خبر نشر نہیں ہو گی۔ 1965ء میں صدارتی انتخابات کا مرحلہ آیا، تو جنرل ایوب خاں اور مادرِملّت محترمہ فاطمہ جناح ایک دوسرے کے مدِمقابل کھڑے دکھائی دیے۔ محترمہ انتخابات میں حصّہ لینا نہیں چاہتی تھیں۔ اُس وقت کمبائنڈ اپوزیشن پارٹی کے سرپرست سابق وزیرِاعظم جناب خواجہ ناظم الدین تھے۔ وہ محترمہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اُن سے جنرل ایوب خاں کیخلاف انتخاب لڑنے کی استدعا کی۔ محترمہ اُنکا بےحد احترام کرتی تھیں، اِسلئے اُنکی بات ٹال نہیں سکیں اور اِنتخابی میدان میں اترنے پر رضامند ہو گئیں۔ ایک سال قبل جنرل ایوب خاں پی ٹی وی قائم کرنے کی پوری تیاری کر چکے تھے تاکہ انتخابات کے دوران لوگوں پر اُنکی شخصیت کی دھاک بٹھائی جا سکے۔ پی ٹی وی نے ریڈیو پاکستان کی کوکھ سے جنم لیا اور آغاز میں زیادہ تر اَفراد ریڈیو پاکستان ہی سے اُس میں گئے تھے۔ اُنہوں نے اُن تمام اقدار اَور وَضع داری کا پورا پورا خیال رکھا جو ریڈیو پاکستان کا طرۂ امتیاز تھیں۔ جنرل مشرف نے 12؍اکتوبر 1999ء کو برسرِاقتدار آنے کے بعد ذرائع ابلاغ کی توسیع میں غیرمعمولی دلچسپی لی اور پرائیویٹ سیکٹر میں ٹی وی چینلز کی تعداد میں حیرت انگیز اضافہ دیکھنے میں آیا۔ جنرل مشرف کے مزاج میں شوخی اور قدرے بےحجابی پائی جاتی تھی، چنانچہ وہ حصار تیزی سے ٹوٹتا چلا گیا جو پی ٹی وی نے قائم کیا ہوا تھا۔ جب ٹی وی چینلز کو وسعت دینے کا فیصلہ ہوا، تو وفاقی وزارتِ اطلاعات و نشریات نے ابلاغِ عامہ کے ماہرین کا ایک اجلاس طلب کیا۔ اُس میں اِس امر پہ تفصیل سے گفتگو ہوئی کہ ٹی وی چینلز کا دائرۂ کار کہاں تک ہونا چاہیے۔ اُس میں ریڈیو پاکستان سے ایک تجربےکار پروڈیوسر نے مشورہ دِیا کہ ٹی وی چینلز کو بکثرت کرنٹ افیئرز کے پروگرام کرنے کی اجازت نہ دی جائے، کیونکہ وہ اِس قدر طاقت ور ہو جائینگے کہ حکومت اُنہیں ریگولیٹ نہیں کر سکے گی۔ اُنکی تجویز سے اتفاق کرنے کے بجائے ٹی وی چینلز پر ہر قسم کے پروگرام نشر کرنے کی اجازت دیدی گئی۔ ہم نے دیکھا کہ اِسکے بعد ایک ایسی تہذیب پروان چڑھنے لگی جس کا ہماری تابندہ رِوایات سے کم ہی تعلق تھا۔

ٹی وی چینلز کا جوںجوں اثرورسوخ بڑھتا گیا، اُن میں سنجیدہ لوگوں سے زیادہ دَولت مند اشخاص شامل ہوتے گئے جنکا مقصد زیادہ سے زیادہ پیسے کمانا اور مقتدر حلقوں میں اپنا اثرورسوخ بڑھانا تھا۔ اُنہوں نے ہر وہ حربہ استعمال کیا جو معاشرے میں زیادہ سے زیادہ سنسنی پھیلا کر چینل کی ریٹنگ میں اضافہ کر سکتا ہو۔ سنجیدہ اَور مہذب معاشروں میں ذرائع ابلاغ نوجوانوں کی ذہن سازی کرتے اور شہریوں میں صحت مند افکار کو فروغ دیتے ہیں اور اُنکے اندر بڑی بڑی تبدیلیاں لانے کی استعداد پیدا کرتے ہیں۔ خوش قسمتی سے ہمارے بعض ٹی وی چینلز یہ قومی فریضہ حُسن و خوبی سے ادا کر رہے ہیں اور ہر قسم کے دباؤ کے باوجود اِحتیاط کا دامن ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ جیو ٹی وی جو سب سے زیادہ دَیکھا جاتا ہے، اُسکے بیشتر پروگرام تہذیبی دائرے میں ہوتے ہیں اور اُن میں جدت بھی ہوتی ہے۔ اسی طرح بعض دوسرے ٹی وی چینلزمیں بھی رکھ رکھاؤ نظر آتا ہے، پروگرامز بھی اعلیٰ معیار کے ہوتے ہیں۔ ہم اُمید کرتے ہیں کہ دوسرے تمام ٹی وی چینلز بھی یہ بات یاد رَکھیں گے کہ قیامت کے روز اُنہیں اپنے چینل سے نشر ہونیوالے ایک ایک جملے کا جواب دینا ہو گا۔ بعض ڈراموں میں عریانی اِس قدر بڑھتی جا رہی ہے کہ اخلاقی اور خاندانی نظام کو بہت زیادہ ضعف پہنچ جانے کا دھڑکا ہر وقت لگا رہتا ہے۔

تہذیب و اَخلاق پر برے اثرات مرتب کرنے کے علاوہ ہمارے بعض ٹی وی چینلز اُردو زبان کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچانے کا باعث بنے ہوئے ہیں۔ قائدِ اعظم نے ڈھاکہ میں ایک بڑے جلسۂ عام سے خطاب کرتے ہوئے قومی وحدت کو مستحکم کرنے کیلئے اُردو کو قومی زبان قرار دیا تھا۔ ہم اِس زبان کا حلیہ بگاڑنے میں لگے ہوئے ہیں۔ اردو کے بےڈھب جملے اور غلط تلفظ عام کرنے کے علاوہ اُس میں انگریزی زبان اِس قدر ٹھونس دی جاتی ہے کہ بات سمجھ ہی نہیں آتی۔ تاہم خوش قسمتی سے ایسے ٹی وی چینلز موجود ہیں جو فیک نیوز سے اجتناب کرتے اور قومی شعور کو پروان چڑھاتے ہیں، مگر سوشل میڈیا نے ایک قیامت ڈھا رکھی ہے کہ خوب اور ناخوب میں تمیز دھندلاتی جا رہی ہے۔ بلاشبہ اُس نے عوامی بیداری میں اہم کردار اَدا کیا ہے اور ہمارے بعض یوٹیوبرز بڑی ذمےداری کا ثبوت بھی دے رہے ہیں، مگر کثرت اُن لوگوں کی ہے جو قوم کا مزاج اور اِمیج بری طرح بگاڑ رہے ہیں۔ کچھ چینلز ایسے بھی ہیں جہاں بھانڈ اینکر پرسن بن بیٹھے ہیں۔ بعض مالکان اپنی ہیبت جمانے کیلئے بڑے بڑے مشاہروں پر ایسے افراد کی خدمات حاصل کرتے ہیں جو حکومت اور فوج کو بےنقط سنانے میں طاق ہیں۔ جب اُنکی ہرزہ سرائی پر اُوپر سے بازپرس ہوتی ہے، تو وہ چشم زدن میں اُنہیں فارغ کر دیتے ہیں۔ باضمیر اور باشعور صحافیوں کیلئےاسپیس کم ہوتی جا رہی ہے۔ معاشرے کے باشعور طبقوں اور شخصیتوں کو اُن مالکان کو یہ احساس دلانا ہو گا کہ اُنکی دولت اُنکے کسی کام نہیں آئیگی اور وُہ مجرم کی حیثیت سے عوام کی عدالت میں کھڑے دکھائی دیں گے۔(بشکریہ جنگ)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں