sach ya kahani farz kahani

کچھ ان کہی باتیں

تحریر: سید بدرسعید

میڈیا انڈسٹری کی کہانیاں کسی حیرت کدے سے کم نہیں ہیں۔ اب تک کی قلم مزدوری کے دوران ایسی ایسی کہانیاں اکٹھی ہو چکی ہیں کہ پورا ناول لکھا جا سکتا ہے ۔ ہمارے ایک کرائم شو کے اینکر بیرون ملک گئے تو اورسیز پاکستانیوں نے ان کی بہت قدر کی ۔ ان کا زیادہ زور البتہ بار پب وغیرہ جانے پر ہی رہا۔ ایسی ہی ایک۔تقریب میں انہوں نے میزبان کے دوست کے ٹیب کی تعریف کر دی ۔ وہ صاحب عاجزی سے کہنے لگے سر آپ کا ہی ہے تو اینکر صاحب نے جھٹ ٹیب ان کے ہاتھ سے لیا اور اپنے تھیلے میں ڈال کر چلتے بنے ۔ ایک سینئر شاعر گئے تو روز ان کے بچے پاکستان سے میزبان کو فون کر کے پوچھتے رہے کہ آج ابا جی نے تحفے کی مد میں  کتنے پیسے کمائے ہیں اور ان تحفوں کا باقاعدہ حساب لکھا جاتا رہا ۔ ایک سینئر صحافی سٹے ایئرپورٹ پر تفتیش ہوئی تو وہاں سے نکلتے وقت میزبان کی لیموزین کی سیٹ گیلی کر بیٹھے۔ بیرون ممالک ان شاعر ، ادیب اور صحافیوں کو اوورسیز پاکستانی اپنی کتب دیتے ہیں جو یہ وزن کے چکر میں پڑھے بنا وہیں چھوڑ آتے  ہیں ۔ ایسی کچھ کتب ایک دوست درویش کی فرمائش پر پاکستان لے آیا ہے ، سوچتا ہوں اپ لوڈ کرنی شروع کر دوں ۔

پاکستان میں بھی خودنمائی یا خود ساختہ سنیارٹی کا یہ عالم ہے کہ از خود ہی طے کر لیا جاتا ہے کہ ہم نے اسٹیج پر بیٹھنا ہے اور اس کے لیے باقاعدہ وارداتیں ڈالی جاتی ہیں ۔  ایسی ہی ایک سرکاری تقریب میں ایک صحافی وہاں موجود سب سے سینئر آفیسر کے واقف تھے سو اگلی نشست پر انہی کے ساتھ چپک کر بیٹھ گئے یہاں تک کہ ان آفیسر نے پہلے درویش کو مس کال کر کے متوجہ کیا پھر اپنی جگہ سے اٹھ کر آئے اور درویش کے کان میں کہنے لگے ۔ اس الو کے پٹھے سے جان چھڑوا دو ، کسی بہانے یہاں سے اٹھاؤ ۔  کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم مصنوعی شہرت یا عزت کے پیچھے بھاگ رہے ہیں اور اسی چکر میں مسٹر بین بن کر ایسی حرکتیں کرتے ہیں جن کا سب کو علم ہوتا ہے (سید بدر سعید )

How to Write for Imran Junior website
How to Write for Imran Junior website
Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں