aik tabah saath | Imran Junior

کوڑا۔۔۔ کر۔۔کٹ۔۔۔

تحریر: علی عمران جونیئر

دوستو، آج اتوار ہے یعنی چھٹی کا دن، چھٹی والے دن شوہرات زیادہ تر گھر کے کام نمٹانے کے بعد ٹی وی کے سامنے بیٹھ جاتے ہیں، اگر کرکٹ میچ آرہا ہوتو ان کی وقت اچھا پاس ہوجاتا ہے، بیگمات اپنے شوہرات کی چھٹی کی مناسبت سے کچن میں اسپیشل ڈشز بناتی ہیں اس طرح خواتین کا ٹائم بھی پاس ہوجاتا ہے۔۔ آج کل پاکستان اور انگلینڈ کی ٹیموں کے درمیان دوسرا ٹیسٹ جاری ہے، پہلے ٹیسٹ میں تو شکست کا سامنا کرنا پڑا، پتہ نہیں ہمیں کیوں لگتا ہے کہ اب ٹیسٹ میچز بھی فیصلہ کن ہونے لگے ہیں، ورنہ ہمیں سب سے زیادہ چڑ ٹیسٹ میچز سے تھی، پانچ دن تک مسلسل میچ دیکھو ، رزلٹ یہ نکلتا ہے کہ ٹیسٹ ڈرا ہوگیا۔۔ باباجی بتارہے تھے کہ کرکٹرز چونکہ ون ڈے اور ٹوئنٹی ٹوئنٹی کے عادی ہوگئے ہیں اس لئے وہ ٹیسٹ کو بھی اسی انداز سے کھیلنے کی کوشش کرتے ہیں ، ٹیسٹ میچز جوکہ تحمل مزاجی ،برداشت اور صبر سے کام لے کر کھیلنے کا نام ہے، آج کل کے کرکٹرز اسے بھی دھواں دھار بیٹنگ کے ذریعے فیصلہ کن بنانے کے چکر میں لگے رہتے ہیں۔ 1970ء کی دہائی تک کرکٹ کی اپنی ثقافت اور معیار تھے۔ یہ کھیل تماشائیوں کو ذہنی تناؤ اور بلند فشار خون کی بجائے سکون اور آسودگی دیتا تھا۔ پانچ روزہ ٹیسٹ میچ اکثر ہار جیت کے فیصلے کے بغیر ختم ہوجایا کرتے تھے لیکن اس وقت شاید ’’ہار جیت ‘‘ کچھ زیادہ معنی بھی نہیں رکھتی تھی۔ کرکٹ کو جنگ و جدل کی بجائے ایک نفیس کھیل سمجھا جاتا تھا۔ شائقین کھلاڑیوں کے ہنر، تکنیک اور کھیلنے کے انفرادی سٹائل سے لطف اندوز ہوا کرتے تھے۔ کھلاڑی بھی مہذب، شائستہ اور پرتحمل تھے۔ پیسے اور شہرت کے جنون پر شوق اور سپورٹس مین اسپرٹ حاوی تھا۔ میچ فکسنگ، جوے اور سٹے کا تصور تک نہیں تھا۔ اس وقت تک کرکٹ کمرشلائز نہیں ہوا تھا۔۔کمرشل کرکٹ کا آغاز80 کی دہائی میں آسٹریلیا کے بڑے سرمایہ دارکیری پیکر نے کروایا تھا۔ پہلے پہل آئی سی سی نے اس رجحان کو روکنے کی کوشش کی لیکن سرمائے نے اس ادارے کو بھی ہڑپ کرلیا۔ ون ڈے کے بعد اس کھیل کو مزید منافع بخش بنانے کے لئے T-20 کا آغاز کیا گیا۔ پھر آئی پی ایل جیسے ٹورنامنٹ شروع ہوئے جہاں طوائفوں کی طرح کھلاڑیوں کی بولیاں لگائی جانے لگیں۔ دولت کی ہوس نے سماج کے ہر شعبے کی طرح کرکٹ کو بھی برباد کر دیا۔ ماضی قریب میں ’’بگ تھری‘‘ کا معاملہ ظاہر کرتا ہے کہ کس طرح کھیل دولت کے شکنجے میں جکڑا جاچکا ہے۔ پاکستانی کرکٹرز محمد عامر، محمد آصف اور سلمان بٹ کو جوئے بازی کے معاملات میں ملوث ثابت ہو جانے کے بعد پانچ سال سات سال اور دس سال کے لئے کرکٹ کھیلنے پر پابندی کی سزابھگتنا پڑی۔۔ دو پاگل کرکٹ دیکھ رہے تھے۔۔آفریدی نے چھکا مارا توایک پاگل زور سے چلایا۔۔ واہ کیا گول کیا ہے۔۔۔ دوسرا فوری بولا۔۔ ابے بے وقوف گول اسمیں نہیں کرکٹ میں ہوتا ہے۔۔ویسے اب آفریدی کے چھکے تو صرف ٹی وی کے اشتہار میں ہی نظر آتے ہیں۔۔ آفریدی کی بچے ٹی وی پر کرکٹ میچ دیکھ رہے تھے، اچانک ایک بچی زور سے چلائی۔۔مما،مما۔۔ جلدی آئیے پپا نے کیا زوردار چھکا مارا ہے۔۔ مما کچن سے چلائیں۔۔ غور سے دیکھو بیٹا وہ شیمپو کا اشتہار ہوگا۔۔ویسے یہ بات بھی اپنی جگہ سوفیصد درست ہی ہے کہ آفریدی پاکستانی کرکٹ کے مولانا فضل الرحمان ہیں- جگہ ہو نہ ہو رکھنا ضروری ہوتا ہے- مولانا کو حکومت میں آفریدی کو ٹیم میں- یک دوست فون پراپنے دوست کوبتارہا تھا۔۔‘‘یار پرسوں ہمارا کرکٹ کا فائنل میچ تھا ، خوب فائٹ ہوئی اور بعد میں بہت لڑائی ہوئی‘‘۔۔ احمدشہزاد کسی دعوت میں گئے، میزبان نے پوچھا کھانا کیسا لگا۔۔ قومی ٹیم کے اوپنر کہنے لگے۔۔‘‘سارا کھانا بہت مزیدار تھا لیکن میٹھا۔۔۔۔ بہت میٹھا تھا‘‘۔۔ یاسر شاہ سے کسی نے پوچھا۔۔بھینس کی کتنی ٹانگیں ہوتی ہیں۔۔لیگ اسپنر نے کہا۔۔ یہ تو کوئی بے وقوف بھی بتادے گا۔۔ پوچھنے والے نے جگت لگائی۔۔اسی لئے تو تم سے پوچھ رہا ہوں۔۔ آفریدی کو بچپن میں استاد نے پوچھا۔۔ کوئی سے پانچ پھلوں کے نام بتاؤ۔۔ آفریدی بولا۔۔ تین مالٹے دو سیب۔۔قومی ٹیم کے پروفیسر نیوزی لینڈ کی ایک مشہور بیکری گئے۔پوچھا ۔۔ یہاں کیا کیا ملتا ہے۔۔ سیلزمین نے کہا سرجوآپ چاہیں گے مل جائے گا۔۔حفیظ نے کہا۔۔کتے کے کھانے کا کیک ہوگا۔۔سیلزمین بولا۔۔سر یہیں کھائیں گے یا گھر لے جائیں گے۔۔شعیب ملک کا تعلق سیالکوٹ سے ہے، ان کے پڑوسی نے ایک بار پوچھا۔۔ کیا آپ بتاسکتے ہیں، گائے مفید ہے یا بکری۔۔ شعیب ملک کہنے لگے۔۔ میرے خیال میں بکری مفید ہے، اس لیے کہ گائے نے ایک بار مجھے ٹکر ماری تھی۔۔عمرگل سے کسی نے پوچھا۔۔خان صاحب کیا جنت میں نسوار ملے گی؟۔۔ شگفتہ مزاج عمرگل بولے۔۔ ہاں ضرور… لیکن اس کو تھوکنے کے لیے جہنم میں جانا پڑے گا۔۔نیوزی لینڈ کے دورے میں ٹیم کے کھلاڑی سیروتفریح میں مشغول تھے کہ ۔۔سرفراز کو ایک بھکاری نظرآیا جو ہاتھ میں پلے کارڈ اٹھائے بھیک مانگ رہاتھا۔۔ پلے کارڈ پر لکھا تھا میں بہرہ اور گونگا ہوں برائے کرم میری مدد کرو۔۔سرفراز بھکاری کے قریب گیا اور پوچھا۔۔ آپ کب سے گونگے اور بہرے ہیں۔۔بھکاری نے فوری جواب دیا۔۔’’ پیدائشی گونگا اور بہرہ ہوں۔‘‘۔۔سرفراز بھی نرم دل تھے جیب سے دس ڈالر کا نوٹ نکال کر فقیر کو دے دیا۔۔عمادوسیم سے استاد نے کہا۔۔ سب لڑکوں نے دودھ پر دو صفحات کا مضمون لکھا ہے، اور تم نے دو سطر کا۔۔ عماد وسیم نے کہا۔۔ جناب! میں نے خالص دودھ پر مضمون لکھا ہے۔ بیوی نے جب شوہر کوتیارشیار ہوکر باہر جاتے دیکھا تو سمجھ گئی کہ کرکٹ کا شوقین کھیلنے جارہا ہے، غصے سے بولی۔۔ پھر وہی منحوس کرکٹ اگر تم ایک شام کرکٹ کھیلنے نہ جاؤ تو میں خوشی سے مر جاؤں۔۔شوہر بڑی معصومیت سے کہنے لگا۔۔بیگم خدا کے لئے مجھے ایسا لالچ نہ دو۔۔کرکٹ ٹیسٹ میچ ہو رہا تھا ،اسٹیڈیم کے گیٹ پر ایک لڑکا پاس دکھا کر اندر جانے لگا تو گیٹ کیپر نے کہا ’’یہ تمھارا پاس تو نہیں ہے‘‘۔ لڑکے نے جواب دیا۔’’یہ میرے والد صاحب کا ہے‘‘۔ گیٹ کیپر نے پوچھا۔۔’’وہ کیوں نہیں آئے؟‘‘۔ لڑکے نے جواب دیا’’وہ بہت مصروف ہیں‘‘۔ گیٹ کیپر نے پوچھا’’وہ کیا کر رہے ہیں‘‘۔ بچے نے جواب دیا ’’اپنا پاس تلاش کر رہے ہیں‘‘۔۔۔ایک قومی کرکٹر ماہرنفسیات کے پاس گیا اور کہنے لگا۔۔ڈاکٹر صاحب میں ایک عجیب مرض میں مبتلا ہوگیا ہوں۔۔ہر وقت سر چکراتا رہتا ہے ۔۔نہ مجھ سے رن بنتے ہیں نہ ہی باولنگ ہوتی ہے۔۔فیلڈنگ کرتے وقت میرا دم گٹھنے لگتاہے، کیچ پکڑتے وقت گیند ہی نظر نہیں آتی۔۔ماہرنفسیات نے پوری بات سن کر انتہائی سنجیدگی سے کہا۔۔آپ ایسا کریں کہ کرکٹ کھیلنا چھوڑ دیں اس کا بس یہی علاج ہے۔۔کرکٹر غصے سے کہنے لگا۔۔نا ممکن ۔۔میں تو اب قومی ٹیم میں کھیل رہا ہوں۔۔ اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔اگر آپ اسٹیشن تاخیرسے پہنچے ہیں تو پھر آپ ٹرین سے یہ شکایت نہیں کرسکتے کہ وہ آپ کو لئے بغیر کیوں چلی گئی۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں