لاہور ہائیکورٹ نے ہتک عزت قانون کیخلاف درخواستوں پر فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کرلیا،عدالت نے ایکٹ پر عملدرآمد کو عدالتی فیصلے سے مشروط کردیا،عدالت نے کہاکہ دیکھنا ہے کون سی ایمرجنسی تھی کہ اس قانون کا نفاذ کردیا گیا۔ لاہور ہائیکورٹ میں ہتک عزت قانون کیخلاف درخواستوں پر سماعت ہوئی،جسٹس امجد رفیق نے صحافتی تنظیموں کی درخواست پر سماعت کی،جسٹس امجد رفیق نے ارشد انصاری اور دیگر کی درخواستوں پر سماعت کی،درخواست گزار کی جانب سے وکیل خواجہ طارق رحیم نے دلائل دیئے،وکیل درخواست گزار نے کہاکہ یہ قانون بنیادی حقوق کے خلاف ہے،اس قانون کے تحت ملزم کو شفاف ٹرائل کا حق نہیں دیا گیا جو آئینی تقاضا ہے،قانون بناتے وقت بنیادی تقاضے پورے نہیں کئے گئے،وکیل درخواست گزار نے کہاکہ اس ایکٹ کے ذریعے حکومت پروفیشنل صحافیوں کو کنٹرول کرنا چاہتی ہے۔عدالت نے استفسار کیا کہ آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ یہ قانون ہونا چاہئے یا نہیں ہونا چاہئے؟ایک عجیب سا پنڈورا باکس کھلا ہوا ہے،وکیل درخواستگزار اظہر صدیق نے کہاکہ ان تمام معاملات کو پیکا ایکٹ میں شامل کیا گیا نئے قانون کی ضرورت نہیں تھی، اس کیلئے پہلے سے ہتک عزت قانون موجود ہے،اس قانون کاا طلاق پنجاب میں ہوتا ہے، کیا کے پی جا کر بندہ کچھ بھی کر سکتا ہے؟ پہلے قوانین وفاقی سطح پر بنتے تھے جو پورے ملک میں لاگو ہوتے تھے۔عدالت نے کہاکہ کیا آپ نہیں سمجھتے کہ ایسا قانون ہمارے ملک میں ہونا چاہئے،جسٹس امجد رفیق نے کہاکہ جس کا دل کرتا ہے موبائل پکڑ کر ویڈیو بنا دیتا ہے،وکیل درخواست گزار نے کہاکہ بالکل ایسا قانون ہونا چاہئے،پیکا ایکٹ پہلے سے موجود ہے،جسٹس امجد رفیق نے کہاکہ پیکا ایکٹ فوجداری کیسز کیلئے ہے،وکیل درخواست گزار نے کہاکہ ہتک عزت قانون میں موجود سقم دور کئے جا سکتے ہیں،جسٹس امجد رفیق نے کہاکہ کئی ایسے قوانین موجود ہیں جن میں حکومت ہی پراسیکیوٹر اور منصف ہے،وکیل درخواست گزار نے کہاکہ ہم عدالت سے اس قانون پر حکم امتناعی جاری کرنے کی استدعا کرتے ہیں، عدالت نے کہاکہ کیسے حکم امتناعی جاری کرسکتے ہیں۔وکیل صدر لاہور پریس کلب نے کہاکہ ایک پروفیشنل صحافی ہر خبر کا ذمے دار ہوتا ہے،عدالت نے کہاکہ عام آدمی کا تحفظ بھی تو ہونا چاہئے، جسٹس امجد رفیق نے کہاکہ سوشل میڈیا نے تو ہر شخص کو صحافی بنا دیا ہے،وکیل درخواستگزار نے کہاکہ فیک نیوز کو کنٹرول کرنے کیلئے قوانین اور ادارے موجود ہیں،گورنر نے دستخط نہیں کئے ،جس کی وجہ سے یہ بل واپس جانا چاہئے تھا،قائم مقام گورنر دستخط کر ہی نہیں سکتے،ارشد انصاری صدر لاہور پریس کلب نے کہاکہ ہم سے وعدہ کیا گیا کہ مشاورت کے بعد قانون سازی کی جائے گی،حکومت نے مشاورت کی اور نہ ہی اس میں موجود سقم دور کئے۔عدالت نے کہاکہ دیکھنا ہے کون سی ایمرجنسی تھی کہ اس قانون کا نفاذ کردیا گیا،وکلا درخواست گزار نے کہاکہ ایک قانون کی موجودگی میں دوسرا قانون نہیں آ سکتا،پیمرا قانون کی موجودگی میں دوسرا قانون نہیں بن سکتا،پیمرا کو چینلز اور میڈیا کیخلاف کارروائی کا اختیار ہے،صحافی ذمے دار رپورٹنگ کرتے ہیں،اس ایکٹ کے تحت گورنمنٹ ہی مدعی اور گورنمنٹ نے ہی سزا کا تعین کرنا ہے،اس ایکٹ کی شق 37آئین پاکستان سے متصادم ہے،دیکھنا ہے کہ حالات ایسے تھے کہ قانون کا نفاذ کیا جاتا ،درخواستگزاروں کے وکلا نے اعلیٰ عدالتوں کے فیصلوں کے حوالے بھی دیئے ،درخواست گزاروں نے استدعا کی کہ عدالت اس قانون کو کالعدم قراردے۔عدالت نے درخواستوں پر سماعت 4جولائی تک ملتوی کردی عدالت نے فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کرلیا،عدالت نے ایکٹ پر عملدرآمد کو عدالتی فیصلے سے مشروط کردیا ،عدالت نے کہاکہ دیکھنا ہے کون سی ایمرجنسی تھی کہ اس قانون کا نفاذ کردیا گیا۔
کون سی ایمرجنسی تھی ہتک عزت بل نافذ کیا، لاہور ہائیکورٹ۔۔
Facebook Comments