mamnooa funding ka faisla or kaptaan ka mustaqbil

کون بنے گا وزیراعلی پنجاب؟

تحریر: جبار چودھری۔۔

سیاست ہو یا کھیل اگر اس گیم میں فیئرپلے نہ ہوتو نتیجہ ہمیشہ ہی متناز ع اور مشکوک ہی رہتاہے۔فیئرپلے کا تقاضا یہی ہے کہ ن لیگ نے جس طرح ضمنی الیکشن کے نتائج فراخدلی سے قبول کرکے سیاست میں شکست قبول کرنے کی نئی روایت ڈالی ہے اسی طرح اسے پنجاب میں پی ٹی آئی اور ق لیگ کے مینڈیٹ کو تسلیم کرکے وزارت اعلیٰ کے راستے میں روڑے نہیں اٹکانے چاہئیں۔ہاں اگر کوئی آئینی یا قانونی راستہ ہے تو اس کو اپنانے میں نہ پہلے کوئی حرج  تھا نہ اب ہوگا۔اگر حمزہ شہبازکو کرسی پررکھنے کے لیے کوئی بھی غیرقانونی اورغیر آئینی راستہ لیا گیا تو ن لیگ کا حال بھی وہی ہوگا جو عدم اعتماد کے آئینی اور قانونی  راستے کے وقت عمران خان صاحب کے روڑے اٹکانے سے ان کا ہوا ہے یا ہوگا۔ کہنے سننے کو تو عمران خان خاموشی سے ایک ڈائری لیکروزیراعظم ہاوس سے نکل گئے تھے لیکن اس نکلنے کے پیچھے کی کہانی جن کو معلوم ہے ان کو ہی معلوم ہے کہ عمران خان وزیراعظم ہاوس میں رہنے کے لیے اپنا ہر اصول  قربان کرتے گئے۔ہر آئینی اور قانونی راستے کے بجائے غیرآئینی ہتھکنڈے اپناتے گئے یہاں تک کہ سپریم کورٹ کو رات کے وقت عدالت کھولنی پڑی اور قیدیوں کی گاڑی بھی بلاناپڑی تھی تب جاکرعمران خان عدم اعتماد پرووٹنگ کرانے اور میدان خالی کرنے پر تیار ہوئے تھے۔

اس وقت پنجاب میں حمزہ شہبازکو گدی پر بٹھائے رکھنے کا آئینی راستہ صرف ایک ہے لیکن غیرآئینی اور غیرقانونی راستے کئی ہیں۔ کچھ ایسے ہی غیرقانونی اور غیر آئینی راستے سولہ اپریل کو بھی اپنائے گئے تھے لیکن ان کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ کل وزیراعلیٰ کا انتخاب دوبارہ ہونے جارہا ہے اورتین ماہ سے پنجاب میں جاری سیاسی عدم استحکام کے خاتمے کی ایک اور کوشش بھی  ہورہی ہے۔میں نے حمزہ شہبازکے لیے  ایک  آئینی آپشن کی بات کی ہے وہ آئینی آپشن  یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے ارکان کو ایک بار پھر توڑنے یا منحرف کرکے ڈی سیٹ کرکے دوبارہ ضمنی الیکشن کی طرف لے جانا اور اس عدم استحکام کے سائیکل کوجاری رکھتے ہوئے دائروں میں گھومنے کی بجائے وہی حکمت عملی اپنائی جائے جو مرکز میں عمران خان کی حکومت گرانے کے لیے اپنائی گئی تھی۔ وہ راستہ چودھری شجاعت کے گھر سے ہوکر جاتا ہے۔اتحادی حکومت نے پرسوں اور کل چودھری شجاعت سے ملاقاتیں کرکے انہیں منانے کی کوشش کی ہے لیکن ابھی تک تو چودھری صاحب کی طرف سے انکارہے۔ابھی انتخابات میں چوبیس گھنٹوں کاوقت ہے ن لیگ کو کوشش جاری رکھنی چاہئے۔میں دوبارہ کہے دیتا ہوں کہ یہی ایک واحد آئینی آپشن ہے جس کے استعمال پر نہ عدالت کو اعتراض ہوگا نہ عمران خان لوٹاازم کا کوئی بیانیہ بناسکتے ہیں  کہ ایک پارٹی کسی کو بھی ووٹ دینے میں آزاد ہے۔ اگر چودھری شجاعت حسین بطور پارٹی کے صدراپنے ارکان کو خط لکھ کر انہیں ن لیگ کے امیدوار حمزہ شہبازکوووٹ دینے کا  پابند کردیں تو آئینی طورپر تو چودھری پرویز الہٰی کا ووٹ بھی پی ٹی آئی کے لیے شمارمیں نہیں آئے گا۔ق لیگ کے دس ووٹ ہیں۔ اوریہ ووٹ اگر حمزہ کی طرف چلے جائیں یا پرویزالٰہی کوووٹ ڈالنے سے وہ گنتی میں نہ آئیں تو حمزہ شہبازہی وزیراعلیٰ رہ سکتے ہیں۔ یہ بھی ہوسکتا  ہے کہ ق لیگ کسی بھی  رکن کو کسی کو بھی ووٹ دینے کی پابند ہی نہ کرے جیسا کہ قومی اسمبلی میں کیا تھا کہ آدھے ووٹ شہبازشریف کی طرف چلے گئے تھے اور آدھے پرویز الہی کے ساتھ رہ گئے  تھے۔ اگر پنجاب اسمبلی میں بھی شجاعت اورپرویز گروپ  میں تقسیم آجائے اورپانچ ووٹ بھی دوسری طرف چلے جائیں تو پرویزالہٰی ناکام ہوسکتے ہیں۔

اگراس ایک راستے سے ہٹ کرپی ٹی آئی کے کسی رکن کو غائب کیا گیا،لالچ دے کراسمبلی سے غیر حاضر کیا گیا یا منحرف کرکے حمزہ کو ووٹ دلوایا گیا  تو ممکن ہے وقتی طورپرحمزہ شہبازوزارت اعلیٰ پر برقراررہ جائیں لیکن پھر یہ معاملہ عدالت جائے گا اورجو کچھ پچھلے تین ماہ میں ہوا ہے وہی اگلے  تین ماہ دہرایا جاتا رہے گا۔حقیقت یہ ہے کہ  اس وقت  پی ٹی آئی کے پاس چند ووٹ زیادہ ہیں اس لیے فیئرپلے کاتقاضا ہے کہ  اس مینڈیٹ کو تسلیم کرلیا جائے اورپرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ منتخب ہونے دیا جائے اس سے نہ صرف ن لیگ کی عزت بڑھے گی بلکہ  ان کے ووٹ بینک میں بھی اضافہ ہوگا۔اگر نہیں یقین تو دیکھ لیں کہ دوہزاراٹھارہ میں پنجاب میں ن لیگ کا مینڈیٹ جہانگیرترین کے جہاز کی نظرکرکے بزدار جیسے سست وزیراعلیٰ کا پنجاب میں تجربہ کیا گیا۔ پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومت تو بن  گئی لیکن اس  کی ساری قیمت پنجاب نے اداکی۔اور نقصان اگر کسی  کا ہوا تو وہ پی ٹی آئی کا ہوا۔اٹھارہ میں زبردستی ن لیگ کے مینڈیٹ کو پی ٹی آئی کا مینڈیٹ بنانے کو کسی نے بھی اچھا نہیں کہا تھا بلکہ پنجاب میں کمزورحکومت کا سیاسی طورپرفائدہ ن لیگ کو ہی ملا۔اگرعدم اعتماد نہ آتی اورپی ٹی آئی مرکز اورپنجاب میں اپنی حکومت کی مدت پوری کرجاتی تو وہ اتنی ہی غیرمقبول ہوتی جتنی اس مہنگائی کی وجہ سے آج شہبازحکومت ہوتی جارہی ہے۔

اب بھی وقت ہے اور فیئرپلے کا پہلا تقاضا یہ ہے کل ہونے والے انتخابات میں ایک بار پھر کسی ایڈونچر کی طرف نہ جایا جائے۔اسی میں پنجاب کی بہتری ہے۔ اسی میں پاکستان کی بہتری ہے اور اسی میں ہی ن لیگ کا فائدہ ہے۔یہ بھی  حقیقت ہے کہ سولہ اپریل کے بعدجو کو کچھ پرویز الٰہی نے کیا۔ پی ٹی آئی کے گورنراور صدرعارف علوی نے کیا وہ بھی کوئی فیئرپلے نہیں تھا۔سوال اہم ہے کہ کیا کل ہمارے سیاستدان اپنا دل بڑاکرکے۔اپنی سیاست اور اپنی ذات کو پیچھے کرکے پنجاب اسمبلی میں فیئرپلے کو ایک موقع دیں گے؟(جبار چودھری)۔۔

chaar hurf | Imran Junior
chaar hurf | Imran Junior
Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں