khuddara bhatti badlein

کون ۔۔۔علی عمران جونیئر؟؟

تحریر: کے ایم خالد۔۔

بار بار کی دستک پر میں نے دراوزہ کھولا تو دروازے پر ڈاکیا کریم پسینے میں شرابور کھڑا تھا ۔

” جی ۔۔۔۔ کوئی منی آڈر ہے؟ “ میں نے سوالیہ انداز سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔

اس وقت ایک سرکاری شمارے کی طرف سے کبھی کبھار معاوضہ کا منی آڈر آ جاتا تھا ۔کریم بھائی ان ساڑھے بائیس روپے کے منی آڈر سے اڑھائی روپے کٹوتی کے بعد بیس روپے ہاتھ میں رکھنے کے بعد ایک عدد سیون اپ کا مطالبہ بھی کر دیتے تھے ۔

”نہیں ایک خط ہے “ کریم نے ہاتھ میں دبے خطوں کے بنڈل سے ایک خط نکال کر میرے ہاتھ میں رکھا ۔اس کے ماتھے پر جون اپنا اثر دکھا رہا تھا اس کی خاکی رنگ کی وردی پسینے سے شرابور تھی۔

”پانی پلاﺅں۔۔۔؟“

”نہیں ،سیون اپ پینی ہے “

”لیکن آج تو منی آڈر نہیں ۔۔۔۔؟“

”تمہیں پتہ ہے یہ خط کہاں سے آیا ہے ۔۔۔؟“ اس نے میرے ہاتھ سے خط لے اس کی پچھلی سائیڈ سے ایڈریس منہ ہی منہ میں پڑھتے ہوئے کہا

 ”میں نے کہا میرے کسی قلمی دوست کا خط ہوگا جہاں سے بھی آیا ہو“۔

”یہ خط کراچی سے آیا ہے “ کریم ڈاکیے نے بلند آواز سے کہا

اس تکرار سے ابا جی قیولہ مختصر کرکے باہر تشریف لے آ ئے ابا جی کو دیکھ کر کریم شیر ہو گیا اس نے خط ان کے حوالے کرتے ہوئے کہا ”بچوں کی خط کتابت پر بھی نظر رکھا کریں “۔

 ”پانی پی لیتے گرمی کافی ہے “۔ابا جی نے میری طرف دیکھا

”نہیں ،شکریہ ڈاک ابھی کافی ہے “ کریم ڈاکیے نے ایک نظر مجھ پر ڈالی جیسے کہہ رہا ہوں ”کیسا دیا “ ڈاک کا بنڈل ہینڈل میں پھنسایا اور سائیکل پر پیڈل مارتا ہوا یہ جا وہ جا۔

ابا جی نے خط پکڑ کر مجھے اندر چلنے کا اشارہ کیا ۔

میرے چچا ،تایا اور ماموں ہماری کالونی میں قریب قریب رہتے تھے خط کو کھولنے سے پہلے ان کو بھی بلایا گیا جب یہ ”جرگہ“ مکمل ہو گیا تو خط کی رونمائی کی باری آ ئی ۔

اوکھوتے اس کو جانتے ہو جس کا خط آیا ہے “ تایا نے حقہ گڑگڑاتے ہوئے پنچائت کا آغاز کیا ۔

”مجھے خط تو پڑھنے دیں “ ۔میں منمنایا

چچا خط کھول چکے تھے انہوں نے صفحہ پلٹا اور پڑھا ”یہ خط علی عمران جو ۔۔۔۔“ان سے جونئیر نہیں پڑھا جا سکا ۔

”لاﺅ مجھے دو “ابا نے چچا کے ہاتھ سے خط لے لیا اور چچا اپنی پانچ جماعتوں پر دل مسوس کر رہ گئے ۔

خط ایک رجسٹر سائز کے صفحے پر لکھا گیا تھا شائد چھٹیوں کے کام کے رجسٹر سے پھاڑا گیا ہو۔ابا نے منہ ہی منہ میں خط پڑھا اور پھر مجھ سے پوچھا اس علی عمران کو جانتے ہو ۔۔۔؟“

”جی یہ بھی ایک رائٹر ہے اور میرے ساتھ ایک رسالے ”چاند “ میں لکھتا ہے “۔میں دل ہی دل میں خوش تھا کہ پہلے تو اکادکا قاری کے خط آتے تھے اب تو سیدھا ایک رائٹر کا خط آیا تھا ۔

”لکھا کیا ہے اس میں “ تایا نے ابا کو گھورا

”لکھتا ہے کہ پاکستان ٹیلی ویژن نے جب کوئی مزاحیہ پروگرام شروع کرنا ہو تو وہ پرانے رائٹرز کی طرف کیوں دیکھتا ہے کیا اسے نئے رائٹر ۔۔۔۔بہت سے بنام لکھے ہیں جس میں اپنے خالد کا نام بھی ہے ۔۔۔وہ کیوں نظر نہیں آتے ۔۔۔ لمبا چوڑا خط تفصیل پڑھنی ہے تو خود پڑھ لو “۔ ابا نے خط دوبارہ چچا کے ہاتھ میں دے دیا چچا نے وہ خط تایا کو پکڑا دیا ۔

تایا نے میری طرف دیکھتے ہوئے ابا کی طرف دیکھا ”تمہیں پتہ ہے ہم دیہاتی لوگ ہیں ہم میں سے کسی نے کراچی نہیں دیکھا سنا ہے اگر ٹرین میں جائیں تو تین دن لگ جاتے ہیں ۔کراچی کے لوگ بہت چالاک اور ہوشیار ہیں اور مجھے تو یہ کوئی گینگ لگتا ہے ۔پاکستان ٹیلی ویژن پتہ ہے کتنی سفارش چاہئے اپنے پتر کو کہو اپنی تعلیم پر توجہ دے ہم نے نہیں لکھنی الف لیلی کی کہانیاں ۔۔۔۔ کوئی تمہارے بیٹے کو ایسا سبز باغ دکھا کر لے جائے گا ۔۔۔۔نام دیکھو علی عمران جو ۔۔۔“تایا بھی جونئیر پر اٹک گئے ۔

ماموں ایک ان پڑھ آدمی تھے انہوں نے مجھے آنکھ مارتے ہوئے حوصلہ دیا ۔

پنچائت برخواست ہو گئی خطوں پر سنسر لگ گیا وہ کھلی ہوئی حالت میں ملنے لگے ۔بس ابا نے لکھنے پر پابندی نہیں لگائی۔اس کے بعد علی عمران جونیئر کا کوئی خط موصول نہیں ہوا ۔

 پاکستان کا واحد طنز و مزاح کا شمارہ ”چاند “ اپنا وجود برقرار نہ رکھ سکا ۔ہم جو مزاح لکھنے کے ٹھرکی تھے نئے راستے تلاشنے لگے ۔مجھے فیس بک پر جہاں بہت سے نئے دوست ملے وہیں یہ پلیٹ فارم ”چاند“ کے دوستوں سے بھی بھرا ہوا ہے۔ایک روز علی عمران جو نئیر کے نام سے ایک ایک آئی ڈی ظاہر ہوئی ایک سفید بالوں والا شخص ” جیو“ کے ڈیسک سے جھانک رہا تھامجھے لگا جیسے چھوٹی عینک کے پیچھے اس کی آنکھیں طنزیہ انداز میں مجھ سے کہہ رہی ہوں ”بزدل شخص مجھے ہی علی عمران جونیئر کہتے ہیں ،دیکھ جیو میں بیٹھا ہوں “۔ان دنوں ایک سٹ کام ”بلبلے“ بہت مشہور تھا اور اس کے رائٹر کا نام بھی علی عمران تھا۔میں نے ڈرتے ڈرتے ریکوسٹ سینڈ کی جو چند لمحوں میں قبول کر لی میں نے میسج میں ٹیلی فون نمبر مانگا جو عنایت کر دیا گیا میں نے گھنٹی کھڑکائی فون اٹینڈ کر لیا گیا ”جی ایک کمزور سی آواز آئی “میں خالد بول رہا ہوں اسلام آباد سے علی عمران بول رہے ہیں ۔۔۔جی بول رہا ہوں ۔۔۔مجھے پہچانا میں نے پوچھا ۔۔۔۔جی نہیں عمران نے اجنبی لہجے میں کہا ۔۔۔۔آپ چاند میں لکھتے تھے ۔۔۔۔جی لکھتا تھا ۔۔۔۔میں بھی لکھتا تھا کے ایم خالد کے نام سے ۔۔۔شائد آپ کا نام پڑھا ہو ۔۔۔اب تو بڑا عرصہ ہو گیا نام شائد بھول گئے ہیں بہت سے ۔۔۔۔جی میں سمجھا آپ نے پہچان لیا ہے ۔۔۔۔بس سمجھ لیں پہچان لیا ہے ۔۔۔اس نے گویا جان چھڑانے کی کوشش کی ۔۔۔۔آپ ”بلبلے “ بہت اچھا لکھ رہے ہیں ۔۔۔۔جی شکریہ ۔۔۔۔“

وہ شائد علی عمران جونیئر کا قبولیت کے کسی لمحے کا وہ ”اپریل فول “ نما خط تھا کہ مجھے پاکستان ٹیلی ویژن اسلام آباد سنٹر سے کام کرنے کا موقع ملا اور یکے بعد دیگرے مجھے دو مزاحیہ ڈرامہ سیریل سمیت عید بقر کے سپیشل مزاحیہ ڈرامے لکھنے کا بھی موقع ملا ۔

علی عمران جونیئر سے مکمل تعارف ملاقات کا موقع سید بدر سعید نے فراہم کیا یہ ”میڈیا “ میں ایک ایسا شخص ہے جو اپنے” اہداف “تک پہنچنے میں کسی میزائل سے کم نہیں ۔جونیئر کو میڈیا میں ”ڈان “ کے نام سے جانا جاتا ہے ایسا ڈان جو دیکھنے میں دہان پان سا لیکن ہمت اور حوصلے میں شائد وہ دھات ابھی معرض وجود میں نہیں آئی جسے جونئیر کا ہم پلہ قرار دیا جا سکے ۔

علی عمران نے سینکڑوں میڈیا ورکرزپر رزق کے دروازے وا کرنے کے لئے اپنے اور اپنی فیملی کے لئے میڈیا کے دروازے بند کر لئے ہیں ۔ لیکن علی عمران جونیئر اور اس کے ”پپو“ کا مقصد ان اداروں میں کام کرنے والے میڈیا ورکرز کے لئے کسی قسم کی ہراسمنٹ سے پاک ماحول فراہم کرنا ہے ۔

اسلام آباد سے ایوبیہ ٹور کے دوران صرف ”پیک “ کے لئے منہ کھولنے والے جونیئر نے کے ایم خالد، سید بدر سعید ،سید عون شیرازی اور علی رضا رحمانی کو اپنے سچے دوست مانتے ہوئے میڈیا میں اپنے ساتھ اور ورکرز کے ساتھ روا رکھے جانے والی بہت سی ناانصافیوں کا تذکرہ کیا ۔انہوں نے خوشگوار لہجے میں اعتراف کیا کہ کے ایم خالد سمیت بہت سے لوگوں کو شبہ ہے کہ جونیئر ”بلبلے “ لکھ رہے ہیں حالانکہ ہرگز ہرگز بھی ایسا نہیں صرف نام ہی ملتا ہے وہ کوئی اور علی عمران ہے ۔(کے ایم خالد)۔۔

(کے ایم خالد معروف مزاح نگار ہیں، تحریر سے اندازہ ہوگیا ہوگا آپ کو، جب چاند میں ہم لکھا کرتے تھے تو خالد بھائی شاید سینئر تھے، میں ان کے نام کا کے ایم کو” خواہ مخواہ” سمجھتا تھا، اور یقین جانیں آج بھی ان کے نام کے شروع میں کے ایم کا مطلب نہیں جانتا۔۔ خوب صورت دل کے انسان خالد بھائی کی اس چاہت بھری تحریر سے اندازہ ہوتا ہے کہ ” پنڈی” والے بھی سرپرستی کررہے ہیں ۔۔ عون شیرازی، بدرسعید ،علی رضا رحمانی کے ساتھ مری اور ایوبیہ کی سیر آج بھی مس کررہا ہوں۔۔کاش کے ایسے مزید سفر ہم ساتھ کرسکیں۔۔ علی عمران جونیئر)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں