seedha faisla karen social media karden

کوئی وزیر،مشیر ٹی وی پر دفاع کو تیار نہیں۔۔

تحریر: رؤف کلاسرا۔۔

پارلیمنٹ ہائوس میں کی گئی تقریر سے لگ رہا تھا‘ وزیر اعظم عمران خان کو خدشات ہیں کہ مائنس ون کی بات چل رہی ہے۔ہر دفعہ ہم سنتے ہیں‘ فلاں فلاں کو مائنس ون کر دیا جائے تو ان کی پارٹی یا حکومت قابل قبول ہو گی۔ یہ مائنس ون کا فارمولہ پہلے کراچی میں الطاف حسین کے حوالے سے سننے میں آیا جب ایم کیو ایم کو یہ مشورہ دیا گیا‘ بہتر ہو گا‘ ان کے بغیر ایم کیو ایم کو سیاسی بنیادوں پر چلائیں۔ کراچی میں الطاف حسین کے بغیر ایم کیو ایم نہیں چل سکتی تھی؛ اگرچہ پارٹی میں چند بغاوتیں ہوئیں، نئے گروپس بنے، فوجی اور پولیس آپریشن ہوئے لیکن الطاف حسین مائنس ون نہ ہو سکے۔ آخرکار انہوں نے خود ہی ایسی تقریریں کر ڈالیں اور مائنس ون ہو گئے۔

اس مائنس ون کا شور اس وقت بھی سننے میں آیا‘ جب غلام اسحاق خان نے میاں شریف کو کہا تھا: آپ شہباز شریف کو وزیر اعظم بنائیں کیونکہ بڑے بھائی کو سیاست سمجھ آتی ہے‘ نہ ہی گورننس۔ سنا ہے انہوں نے مشہور زمانہ جواب دیا تھا: اگر چھوٹا بیٹا سیاست کو دے دیا تو پھر کاروبار کون چلائے گا۔ مطلب جس بیٹے کو وہ کاروبار چلانے کے اہل نہیں سمجھتے تھے اسے ملک چلانے پر لگا دیا۔ شہباز شریف کے اپنے برخوردار سلمان شہباز بڑے ہوئے تو انہوں نے باپ کا کاروبار سنبھال لیا اور ایسا سنبھالا کہ تفصیلات پڑھ کر کانوں سے دھواں نکل آئے۔ ایسی منی لانڈرنگ ہوئی اور اتنا پیسہ آیا کہ رکھنے کو جگہ نہ ملی اور لندن نکل گئے۔ مشرف بھی یہی فرمائش لے کر رائے ونڈ میاں شریف سے ملنے گئے تھے کہ بہتر ہوگا نواز شریف کو مائنس کرکے شہبازکو وزیراعظم بنا دیں۔ وہ نہ مانے تو بارہ اکتوبر کا مارشل لاء لگا۔ نواز شریف گرفتار ہوئے اور پھر جلاوطن۔ جلاوطنی کے دنوں میں بھی خفیہ مذاکرات چلتے رہے کہ نواز شریف کو مائنس کر دیں تو شہباز شریف کو جنرل مشرف قبول کر سکتے ہیں۔ وہ پھر بھی نہ مانے اور آخر نواز شریف واپس آئے اور پھر انہیں ہمیشہ کے لیے مائنس ون کرکے واپس لندن بھیج دیا گیا۔

اسی طرح آصف زرداری کو مائنس ون کرنے کی باتیں بینظیر بھٹو کے پہلے دور سے ہی شروع ہو گئی تھیں جب ان پر کرپشن کے الزامات لگنا شروع ہوئے اور مقدمے بھی بنے جس میں وہ گرفتار رہے۔ بعد میں ضرورت پڑنے پر انہی اسحاق خان نے انہیں وزارت کا حلف دلوایا جنہوں نے جیل بھیجا تھا۔ بینظیر بھٹو کی دوسری حکومت زرداری چلا رہے تھے۔ وہ گرفتار ہوئے اور 2004 میں اس وقت رہا ہوئے جب یہ طے ہو گیا کہ وہ اب پاکستانی سیاست میں حصہ نہیں لیں گے۔ پیپلز پارٹی میں بینظیر بھٹو کی بجائے زرداری کو مائنس کرنے پر زور تھا۔ اگرچہ بینظیر بھٹو کو بھی سکیورٹی رسک قرار دے کر مائنس ون کرنے کی کوشش کی گئی تھی لیکن وہ کوشش کامیاب نہ ہو سکی۔ جب بینظیر بھٹو پاکستان جلاوطنی کے بعد لوٹیں تو زرداری دوبئی میں تھے۔ پھر بینظیر بھٹو قتل ہوئیں تو زرداری ملک کے صدر بنے‘ اور پھر وہ بھی اب مائنس ون کی صورت حال کا سامنا کررہے ہیں۔ اس وقت عمران خان صاحب کو بھی لگتا تھا کہ پاکستان کے مسائل کا حل الطاف حسین، بینظیر، نواز اور زرداری کو مائنس ون کرنے میں ہے۔ جنرل مشرف بھی کہتے تھے‘ وہ بینظیر بھٹو اور نواز شریف کو پاکستان واپس نہیں آنے دیں گے۔ وہ اپنے تئیں انہیں مائنس کر چکے تھے۔ قدرت کے اپنے کھیل ہوتے ہیں کہ وہ دونوں واپس آئے اور ایک ایک کرکے مائنس ون ہو گئے۔ بینظیر بھٹو قتل ہوگئیں تو نواز شریف مستقل نااہل۔

یقینا عمران خان صاحب کیلئے ان دونوں کا مائنس ہونا سیاسی طور پر خوش بختی ثابت ہوا اور شاید وہ یہی چاہتے تھے۔ اس میں شک نہیں کہ جس طرح کی گورننس اور سٹائل پیپلز پارٹی اور نواز لیگ نے متعارف کرایا‘ اس کے بعد یہی کچھ ہونا تھا جو ہوا۔ ویسے انہیں اس بات کی داد دینا پڑے گی کہ ان سیاسی پارٹیوں کے سربراہوں نے تمام تر مشکلات اور جیلوں کے باوجود مال بنانا نہیں چھوڑا۔ ان کے نزدیک اقتدار کا مقصد ان لوگوں کی خدمت نہیں تھی جنہوں نے انہیں اپنا بادشاہ بنایا تھا بلکہ انہیں لگا خدا نے انہیں مال بنانے کا موقع دیا ہے اور یہ ان کا حق بنتا ہے کہ وہ اس قوم سے بھاری سروس چارجز وصول کریں۔ کسی نے لندن میں فلیٹس خرید لیے تو کسی نے سرے محل۔ کسی کی دنیا کے پانچ براعظموں میں جائیدادیں تو کسی کی سوئٹزرلینڈ میں چھ کروڑ ڈالرز کی منی لانڈرنگ سامنے آئی۔ پاکستان میں گھر کی سکیورٹی پر پندرہ ارب خرچ کیے تو تین تین چار گھروں کو بھی کیمپ آفس ڈیکلیئر کرکے سرکاری خرچے پر لگا دیا۔ تین ہزار ایلیٹ فورس کے جوان ان کے خاندان کی حفاظت پر متعین تھے۔ لگتا تھا‘ دہشت گردی کے نام پر ایلیٹ فورس دراصل ہائوس آف شریف کے لیے بنائی گئی تھی۔ آج یہ حالت ہو چکی ہے کوئی لندن دربدر ہے‘ کوئی رائے ونڈ بیٹھا ہے۔

عمران خان نے زرداری اور شریف کے زوال سے کیا سیکھا؟ انہیں کیوں مائنس ون پر پوری تقریر کرنے کی ضرورت پیش آئی؟ عمران خان بھی کہیں وہ غلطیاں تو نہیں دہرا رہے جو شریفوں اور زرداری نے کیں؟ ہو سکتا ہے آپ اعتراض کریں گے کہ عمران خان کے لندن، جنیوا یا دوبئی میں کوئی محل نہیں ہیں‘ نہ ہی پانچ براعظموں میں جائیدادیں ہیں‘ لہٰذا موازانہ نہیں بنتا۔

کیا یہ کافی ہے؟ اب لوگ الٹا ناراض ہوتے ہیں کہ میڈیا کیوں عمران خان کو یہ شک کا فائدہ دیتا ہے کہ وہ خود تو کرپٹ نہیں ہیں حالانکہ ان کی ٹیم کے بارے میں شک نہیں رہا کہ وہ مال بنا رہی ہے اور کھل کر بنا رہی ہے۔ عام بندے کو تو چھوڑیں اب خود کابینہ کے ارکان بھی کہنا شروع ہوگئے ہیں کہ خان صاحب کے مشیر مال بنا رہے ہیں لیکن بدنامی کا طوق سب کے گلے میں فٹ ہورہا ہے۔ اب کوئی وزیر ان مشیروں کا ٹی وی پر دفاع کرنے کو تیار نہیں ہے جنہوں نے شوگر، ادویات ، بجلی گھروں اور اب پٹرول میں لمبا مال کمایا ہے۔ ہر سکینڈل میں وزیر اعظم کے دو تین قریبی دوستوں اور مشیروں کا مسلسل نام آرہا ہے جو ہر انکوائری رپورٹ کا حصہ ہوتے ہیں۔ شوگر سکینڈل آیا تو عمران خان کے اپنے رزاق دائود نکلے۔ جہانگیر ترین نکلے جو خان صاحب کے خرچے برداشت کرتے رہے۔ اسد عمر نکلے۔ بجلی گھروں کا سکینڈل آیا تو اس میں ندیم بابر، رزاق دائود، مخدوم برادرز اور ترین نکلے۔ اب پٹرول کا سکینڈل آیا تو پھر اس میں پھر ندیم بابر نکلے ہیں۔ اب وزیروں کی بس ہوگئی ہے اور وہ کہتے پھرتے ہیں جو مال بنا رہا ہے وہی ٹی وی پر جائے۔ ندیم بابر خود جائیں اور جو مال بنایا ہے اس کی وضاحت دیں۔ زلفی بخاری خود روزویلیٹ ہوٹل میں اپنی دلچسپی ٹی وی پر بیان کریں۔ اب باقاعدہ کابینہ میں ندیم بابر کو کہا گیا وہ ارشد شریف کے شو میں جائیں اور اپنی صفائی دیں کیونکہ ہر سکینڈل کا کھرا ان کے گھر آتا ہے۔

اب پی آئی اے پائلٹس کے سکینڈل کو جس طرح ہینڈل کیاگیا‘ اس پر کابینہ کے بدھ کے اجلاس میں شدید ردعمل آیا ہے اور وزرا برس پڑے ہیں کہ کیسے حکومت چلائی جا رہی ہے کہ تین انکوائریاں جعلی لائسنس پر ہوئی ہیں اور تینوں ایک دوسرے سے نہیں ملتیں۔ اگر کرنا بھی تھا تو انٹرنل انکوائری مکمل ہو کر پھر ہی پائلٹس کے خلاف کارروائی ہوتی۔ ایک ہی پریس کانفرس کرکے پی آئی اے اور ملک کا بیڑا غرق کر دیا گیا ہے۔

یوں دو سال کے اندر اندر وزیر اعظم خود کو اس حالت میں لے آئے ہیں کہ اپنے دوستوں کے کاروبار کو بچاتے بچاتے اب خود ان کے بارے میں باتیں ہونا شروع ہوگئی ہیں۔ اب خود کہہ رہے ہیں مائنس ون ہو بھی گیا تو بھی کوئی نہیں بچے گا۔ نواز شریف اور زرداری بھی یہی سمجھتے رہے مائنس ون کسی اور پر لاگو ہوگا ان پر نہیں۔ سوال یہ ہے اگر عمران خان کے قریبی دوست، لاڈلے اور مشیران وہی کام کریں گے جو زرداری شریف اینڈ کمپنی کرتے رہے ہیں تو پھر انجام کیسے مختلف ہوسکتا ہے؟(بشکریہ دنیا)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں