تحریر:ناصر جمال
میں نے کبھی، ملک آصف حیات اور خورشید شاہ کو اختیار اور اقتدار کے دنوں میں کہا تھا کہ ’’صحافت کا آنیوالا دور تباہ کُن ہوگا۔ میڈیا سیٹھ اس شعبے کو برباد کردیں گے۔ پیرا شوٹر اینکرز اور تجزیہ کار، صحافت اور صحافیوں کے لئے بارودی سرنگوں سے بھی زیادہ خطرناک ثابت ہونگے۔ اسٹیبلشمنٹ، ہاں کنٹرول کو زیادہ مضبوط کرے گی۔ تاکہ مرضی کے نتائج بذریعہ پروپیگنڈہ حاصل ہوں۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ’’اس پر کیا، کیا جائے۔‘‘ میں نے کہا کہ ’’صحافت اور صحافی‘‘ کو تحفظ دینا ہے۔ بولے کس طرح۔ میں نے کہا کہ حکومتوں کے اشارے پر دس،بیس، ارب روپے، ادھر سے اُدھر ہونا کونسا مسئلہ ہے۔ آپ صحافیوں کو آزادانہ طور پر گروپس کی شکل میں سافٹ قرضہ دیں۔ اُردو، انگلش، مقامی زبانوں، بطور خاص، سندھ میں دو تین میڈیا ہائوس، بمعہ بورڈ آف گورنر کھڑے کردیں۔ دس سال کی تنخواہیں، بمعہ سالانہ اضافہ الگ سے، اکائونٹ سیل کردیں۔ کوئی چھیڑ نہ سکے۔ پروفیشنل اور اچھی شہرت کے صحافیوں کو پالیسی بورڈ میں شامل کریں۔ سیٹھوں کی مارکیٹ سے ’’مناپلی‘‘ ختم ہوجائے گی۔ ایجنڈے سیٹ نہیں ہوسکیں گے۔ آپ صحافیوں سے کسی رعایت کی توقع نہیں رکھیے گا۔ مگر وہ آپ سے زیادتی نہیں کریں گے۔ اور نہ ہی ہونے دیں گے۔ ان کا آزاد قلم،ایجنڈوں، ڈنڈوں، کو ادھیڑ کررکھ دے گا۔ بلیک میلنگ کے وہ بخیے اڑا کر رکھ دیں گے۔ ’’ذاتیات‘‘ صحافت سے نکل جائے گی۔ ظاہر ہے، یہ مشورہ کس نے ماننا تھا۔
دوسرا میں نے انھیں یہ بھی کہا تھا کہ ’’میڈیا‘‘کو اشتہارات کے خون سے نکال کر، وہ میڈیا کے آلات، کاغذ، کلرز، کیمرے، سیٹلائٹ وغیرہ کو اتنا سستا کردیں کہ پروفیشنل اپنی پروڈکٹ کو بآسانی تیار کرلیں۔ آگے، مارکیٹ بننا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ جس کے پاس معیار ہوگا۔ وہ دوسروں کو گرالے گا۔
صحافی اور میڈیا ورکروں کی تنخواہوں کا تحفظ، ہائرنگ، فائرنگ کا میکنزم زیادہ مضبوط ہونا چاہئے۔ اس پر ایکٹ آف پارلیمنٹ ہو۔ ہائرنگ پر دواضافی تنخواہیں دیں۔ جو کہ آسان اقساط پر کاٹیں۔فائرنگ پر چار تنخواہیں دیں۔ اگر وہ خود استعفیٰ دے تو، ایک تنخواہ کا حق دار ہو۔ جو کہ ایک ماہ کم از کم نوٹس ہو۔ ’’ہائرنگ اور فائرنگ‘‘ زیادہ کوالٹی والی ہوجائے گی۔ ہر ایرے، غیرے، اور غیر صحافیوں، نان پروفیشنل کا راستہ اس شعبے میں خودبخود رکنا شروع ہوجائے گا۔ ایڈیٹر کا ادارہ بحال ہونا ضروری ہے۔ پالیسی، پروفیشنل صحافیوں کے تابع ہونی چاہئے۔
صحافتی تنظیموں پر مکمل پابندی ہونی چاہئے۔ صحافی اپنا کام کریں۔ جو کہ ان کی کُور جاب ہے۔ وہ کسی سیاسی جماعت کاکیوں ٹول یا حصہ ہوں۔ پریس کلبز کو پریس کلبز رہنے دیں۔ یہ پلیٹ فارم زیادہ مضبوط کریں۔ یہاں ہر کسی کی آواز بلند ہونے کا انتظام ہونا چاہئے۔ یہاں جلسے نہ ہوں۔ پریس کانفرنس اور سیمینار ضرور ہوں۔ اور صحافت کی صلاحتیں نکھارنے کا بھرپور عمل یہیں سے ہونا چاہئے۔
بدقسمتی سے پریس کلبز، روٹی کلب اور پراپرٹی دفاتر میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ رہائش کے مسائل کسی اور طرح سے بھی حل ہوسکتے ہیں۔ جبکہ پریس کلبز کی حکومتی گرانٹ پر مکمل طور پر پابندی ہونی چاہئے۔ پریس کلب کے ممبر کی ایک ہزار روپے ’’ماہانہ فیس‘‘ لازمی کی جائے۔ میں دیکھتا ہوں کہ کیسے یہاں جعلی لیڈر شپ قابض ہوتی ہے۔ جو سال میں بارہ ہزار دے گا۔ وہ پھر حساب بھی مانگے گا۔ سہولتیں بھی دیکھے گا۔ آپ نے اپنے مظلوم دوستوں کی مدد کرنی ہے تو، جی۔ ایم جمالی فنڈز کے آئیڈیے پر، زیادہ بہتر اپنی مدد آپ کے تحت، فنڈ قائم کیا جاسکتا ہے۔ کمیونٹی اپنے لوگوں کی خود مدد کرکے۔ کچھ تو حمیت، خُو، خوداری کی طرف آئیں۔ بہت ہوچکا۔ ہمارے صحافی کیوں تہیہ نہیں کرتے کہ ’’انھیں کسی مرکزی، صوبائی حکومت، اداروں کی گرانٹ نہیں چاہئے۔‘‘ اگر یہ سب کچھ آج کے دور میں بھی آپ نہیں کرسکتے تو، ان پریس کلبز کو پھر بند ہی کردیں۔ کہیں پر تو، اپنے پائوں پر، اپنے قد کاٹھ کے ساتھ کھڑے ہوں۔ آج درجنوں کی تعداد میں، شہر کے اہم کلبز کے صحافی، ممبر ہیں۔ وہاں پانچ ہزار روپے صرف ’’لازمی فیس‘‘ ہر ماہ دیتے ہیں۔ پھر اپنی طاقت کےمنبع کو کیوں نہیں دے سکتے۔ بہت ہوچکا، کہیں سے تو، واپسی کرو۔ کہیں پر تو، حکومتوں کی غلامی کرنا چھوڑ۔ صحافیوں کو کرگس نہ بنائو۔ کہیں تو ،خود کو پہچانو۔ اور کچھ نہیں تو، اس قلم کی لاج رکھو۔ وگرنہ اس پر’’برائے فروخت‘‘ کاٹیگ لگا کر، ہر پریس کلب پر پرچم بلند کردو۔ فہیم مغل کی لاشوں کو ایسے ہی اٹھاتے اور بیچتے رہو۔(ناصر جمال)۔۔