تحریر : علی عمران جونیئر
دوستو،دنیا بھر کے مہنگے ترین ممالک کی فہرست میں پاکستان چوتھے نمبر پر آگیا۔معروف بین الاقوامی جریدے ‘دی اکانومسٹ’ نے 43 ممالک میں مہنگائی کے اعداد و شمار جاری کردیے جس کے مطابق مہنگائی کے اعتبار سے پاکستان دنیا کے 43 ممالک میں چوتھے نمبر پر ہے۔ بھارت میں مہنگائی کی شرح 4.3 فیصد ہے اور بھارت کا نمبر سولہواں ہے۔ دنیا میں سب سے زیادہ مہنگائی جنوبی امریکی ملک ارجنٹائن میں ہے جہاں مہنگائی کی شرح 51.4 فیصد ہے۔ مہنگائی کے اعتبار سے ترکی دوسرے نمبر پر ہے جہاں مہنگائی کی شرح 19.6 فیصد ہے، برازیل 10.2 فی صد شرح کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے۔
مہنگائی تو موجودہ وقت کی تلخ حقیقت بن چکی ہے، پورے ملک میں شاید ہی کوئی غریب یا متوسط طبقہ سے تعلق رکھنے والا شہری یادیہاتی مہنگائی کے بوجھ تلے آنسو نہیں بہارہا ہوگا۔حکومت کہتی ہے میڈیا مثبت خبریں دیا کرے، چلیں اس مہنگائی کے پرآشوب دور میں آپ کو خوشی کی مثبت خبر یہ دیے دیتے ہیں کہ۔۔بھارت عالمی سطح پر غربت کی فہرست میں پاکستان، بنگلہ دیش اور نیپال سے بھی نیچے چلا گیا ہے۔گلوبل ہنگر انڈیکس (جی ایچ آئی) کی جانب سے جاری اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ سال بھارت عالمی سطح پر غربت کے حوالے سے 94 ویں نمبر پر تھا لیکن اب 101 ویں نمبر پہ آگیا ہے۔ اس لحاظ سے وہ نائیجیریا اور کانگو جیسے افریقی ممالک سے ہی آگے رہ گیا ہے۔واضح رہے کہ گلوبل ہنگر انڈیکس صرف دنیا کے 116 ممالک کا ہی احاطہ کرتا ہے۔عالمی انڈیکس کے مطابق پاکستان 92 ویں، بنگلہ دیش 76 ویں، سری لنکا 65 ویں اور نیپال 76 ویں نمبر پر ہے۔ اعداد و شمار کے اعتبار سے افغانستان، بھارت سے صرف دو درجے ہی نیچے ہے جب کہ وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے جنگ و جدل کا شکار ہے۔ افغانستان کا نمبر 103 واں ہے۔جی ایچ آئی کے مطابق رواں سال چین، برازیل اور کویت سمیت 18 ممالک نمبر پانچ سے بھی کم اسکور کے ساتھ ٹاپ رینکنگ میں شامل ہیں۔
ایک طرف غربت میں پاکستان کا چورانوے نمبر ہے دوسری طرف یہاں کے باسیوں کا یہ حال ہے کہ یہاں کے عوام تین ماہ کے دوران 24 ارب 80 کروڑ روپے کی چائے پی گئے، 11 ارب روپے کے مسالہ جات اور 36 ارب کی دالیں درآمد کی گئیں۔ حکومت کی جانب سے رواں مالی سال 2021-22ء کی پہلی سہ ماہی (جولائی تا ستمبر) کے دوران مجموعی طور پر 388 ارب 51 کروڑ روپے سے زائد مالیت کی اشیائے خور و نوش درآمد کی گئیں جو کہ گزشتہ مالی سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں 103 ارب 17 کروڑ روپے زائد ہیں۔وفاقی ادارہ شماریات کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ مالی سال کے دوران اسی عرصے میں 285 ارب 34 کروڑ روپے کی اشیائے خوردو خوش درآمد کی گئیں۔ مجموعی طور پرمالی سال کے ابتدائی تین ماہ میں 3 ہزار ارب روپے سے زائد کی درآمدات کی گئیں جو کہ گزشتہ مالی سال کے اسی عرصے میں 18 سو 88 ارب روپے سے زائد تھیں۔ادارہ شماریات کے مطابق جولائی تا ستمبر تک 146 ارب روپے سے زائد کا پام آئل درآمد کیا اور جولائی تا ستمبر 16 ارب 63 روپے سے زائد کی گندم درآمد کی گئی۔جولائی تا ستمبر 15 ارب روپے سے زائد کی چینی درآمد کی گئی، جب کہ 3 ماہ میں پاکستانی 24 ارب 80 کروڑ روپے کی چائے پی گئے۔ اسی عرصے میں 11 ارب روپے سے زائد کے مسالہ جات درآمد کئے گئے جبکہ 36 ارب 57 کروڑ روپے سے زائد کی دالیں درآمد کی گئیں۔
حکومت جس طرح سے چل رہی ہے باباجی کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ جس طرح وال کلاک کے سیل کمزور ہوجاتے ہیں تو وہ رک رک کر چلتی ہے یہی حال حکومت کاہے۔پٹرولیم مصنوعات کی قیمت میں جو یکدم خطیر اضافہ کیا ہے،اس پر ڈھٹائی کا عالم یہ دیکھنے والا ہے کہ حکومتی وزرا، مشیر اور ان کے چاہنے والے قیمتوں کا موازنہ عالمی منڈی سے کر رہے ہیں کہ بھارت، بنگلادیش، امریکا، یورپ میں تیل پاکستان سے کتنا مہنگا ہے؟لیکن کوئی یہ بتانے پر تیار نہیں کہ وہاں کی فی کس آمدنی کتنی ہے؟ وہاں عوام کو کیا کچھ سہولتیں مل رہی ہیں، وہاں تیل کے علاوہ کھانے پینے کی اشیا کے کیا نرخ ہیں؟ سوشل میڈیا پر اسی حوالے سے کسی دل جلے نے کیا خوب لکھا ہے کہ۔۔ قیمتیں عالمی منڈی کے مطابق، تنخواہ سبزی منڈی کے مطابق،سہولتیں ہیرامنڈی کے مطابق۔۔۔سہولتوں والی بات کچھ معیوب سی ہے لیکن موقع کی مناسبت سے بالکل درست لگتی ہے،جس طرح ہیرامنڈی میں جس کے پاس پیسہ ہوتا ہے وہی عیاشی کرسکتا ہے، اس ملک کا حال بھی کچھ ایسا ہی ہوگیا ہے۔۔ بیوروکریسی، وزیروں،مشیروں کو تو سرکاری فیول ملتا ہے اس لئے انہیں تیل کی قیمتوں سے کیا لینا دینا، ان کو بجلی کے ہزاروں یونٹس فری دیئے جاتے ہیں،انہیں بجلی مہنگی سے کیا سروکار؟؟ انہیں سیلری پہلی تاریخ کو وقت پر مل جاتی ہے،(چاہے کام کریں یا نہ کریں)، دیہاڑی دار طبقہ توپیٹ پرپتھر باندھ کر زندگی گزار رہا ہے،جنہیں ایک دن مزدوری ملتی ہے تو تین دن فاقہ رہتا ہے۔۔۔پلس کنسلٹنٹ کی سہ ماہی سروے رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ معاشی پالیسیوں پر بھروسہ نہ کرنے والوں میں اضافہ ہوا ہے۔رواں سال جولائی میں 38 فیصد کو اور اب 57 فیصد پاکستانیوں کو حکومت کی معاشی پالیسیوں پر اعتبار نہیں ہے۔ سروے رپورٹ کے مطابق گزشتہ 3 ماہ میں حکومتی معاشی پالیسیوں پر اعتبار نہ کرنے والوں میں 19 فیصد اضافہ ہوا ہے۔رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ ملکی معاشی سمت درست نہ سمجھنے والوں کی مجموعی تعداد 75 فیصد ہوگئی ہے۔تعلیم مسلسل مہنگی سے مہنگی تر ہوتی جارہی ہے،لیکن حیرت انگیز طور پر دوسال سے اسکولزمسلسل بندہونے کے باوجود بچے سوفیصد مارکس حاصل کررہے ہیں ایسا لگتا ہے کہ ان کے امتحانی پیپرزٹیچرز نہیں بلکہ واپڈا کے میٹر ریڈرز چیک کررہے ہیں۔۔باباجی فرماتے ہیں۔۔ایک تازہ تحقیق سے ثابت ہوا کہ تعلیم انسان کو کالا کر دیتی ہے۔اسی لیے کہا جاتا ہے کہ فلاں چٹا ان پڑھ ہے۔تو اگر چٹے رہنا چاہتے ہو ان پڑھ رہو چٹے رہو گے۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔اگر آپ اپنے دوستوں کے دکھ، درد اور پریشانیوں سے واقف رہنا چاہتے ہیں تو کبھی کبھار دو چار ہزار ادھار مانگ لیا کریں۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔