تحریر: سید عارف مصطفیٰ
کبھی کہیں سے واپس گھر لوٹتے ہوئے اگر رستے میں بازار پڑجائے تو آناً فاناً میرا ذوق خریداری وجد میں آجاتا ہے اور جیب میں اک دھمال سا پڑجاتا ہے جس سے میرا بٹوہ بیحال ہوجاتا ہے اور جس کے نتیجے میں کی گئی بگٹٹ خریداری کو نظرِ بد اور نظرِ بیگم ( یقین کیجیئے یہ دو قطعی الگ الگ باتیں ہیں ) سے بچانے کے لیئے میں چند مناسب حفاظتی اقدام کرنا نہیں بھولتا اور ذاتی خریداری کے تھیلوں کو جھٹ پٹ احتیاطی طور پہ خریدے گئے سبزی بھاجی کے دفاعی تھیلوں کی اوٹ میں لے لیتا ہوں اور رفع شر کی اس محفوظ ترکیب کی بدولت اکثر اپنے ذاتی سامان کی اپنے کمرے تک بحفاظت ترسیل میں کامیاب بھی رہتا ہوں لیکن اکثر ہی یہ ہڑبڑاہٹ کی غذائی رسد ایک نئی مصیبت کھڑی کردیتی ہے اور میری مشقت دو چند ہوجاتی ہے یعنی ایک تو سبزی لانے کی محنت دوسرے بیگم کو یہ یقین دلانے کی مشقت کہ میں یہ سبزی واقعی خرید کے ہی لایا ہوں اور یہ دکان یا ٹھیلے کے اوپر ہی رکھی تھی نیچے وغیرہ نہیں ۔۔۔ تقریباً ہر مرتبہ ہی جب بھاجی کا تھیلا کھلتا ہے تو مجھے پاجی باور کرنے کے سو اسباب بھی خود بخود پیدا ہوجاتے ہیں ۔۔۔ اور اکثر تو خود مجھے بھی یقین نہیں آتا کہ تھیلے سے برآمد کردہ مخدوش سامان کو میں واقعی پیسے دے کے لایا ہوں کیونکہ وہاں میتھی کے نام پہ چند اوپری پتیوں کے نیچے سے ایسا کچھ نکلتا ہے کہ سراسر بکرے کا سامان ضیافت معلوم ہوتا ہے اور پالک کا احوال بھی کچھ مختلف نہیں ہوتا ، گڈّی کے اوپر اوپر چند پتے تو ضرور پالک کے ہی ہوتے ہیں باقی انکے نیچے ایسے یتیم ڈنٹھلوں کا گٹھا سا ہوتا ہے کہ جسکے سروں سے سرسبز پتوں کا سایہ اٹھ چکا ہوتا ہے ۔۔اب انہیں بیشک خود چبائیئے یا بکرے کی دعائیں لیجیئے ۔۔۔ ٹماٹروں کا بھی معاملہ کچھ ایسا ہی ہوتا ہے جو ٹھیلے پہ پڑے ہوں تو انکی سرخی و زیبائی دل کو بھاتی ہے لیکن بعد میں پتا چلتا ہے کہ اکثر کروٹ سے لٹائے گئے تھے ورنہ تو ہر ایک کی گود ہری تھی اور کسی نہ کسی کیڑے سے بھری تھی ۔۔۔
شلجم نامراد بھی میری بدنامی میں اضافے کا باعث بنتے ہیں اور اکثر یہ سننے کو ملتا ہے کہ پتیلی گلنے کو ہے مگر آپکے شلجم نہیں گلے ۔۔۔ تھیلے کی ایسی ہی چھان بین میں اگر انہیں کبھی کوئی گنجا بینگن ہاتھ لگ جائے تو یہ ضرور پوچھتی ہیں کہ اس تاجدار کا تاج کیا ہوا ۔۔۔ اس موقع پہ ہم یہی کہ کرہی جان چھڑاتے ہیں کہ تم بینگنوں کے تاج کا کیا پوچھتی ہو ، یہاں تو تاج برطانیہ بھی اب گیا کہ تب گیا ، باقی سبھی تاجداربھی شدید خطرے میں ہیں ۔۔۔ بیگم کو حالانکہ معلوم بھی ہے کہ ہم فطرتاً عیب جو نہیں مگر وہ اس موقع پہ ہماری شان میں ایک طویل قصیدہ پڑھنے سے باز نہیں رہتیں ورنہ ہم بزرگ آلوؤں کی پلپلاہٹ کا عیب بھی کیوں نہ تلاش کرپاتے۔۔۔
پھلوں کی خریداری کا معاملہ اس سے بھی کہیں ابتر ہے۔۔ کیونکہ پہلے تو وقت بچانے اور مکھیوں کے التفات سے نجات پانے کے لیئے ہم جھٹ پٹ بند تربوز خرید لے آتے تھے لیکن پھر ہوتا یہ تھا کہ کاٹتے ہی لال سی دِکھنے والی جو چیز سامنے نظر آتی تھی وہ تربوز ہرگز نہیں بلکہ بیگم کا چہرہ ہوتا تھا ۔۔۔ اور بعد میں یوں بھی ہوا کہ خوب دیکھ کر کٹا ہوا لال تربوز لے بھی آئے تو وہ بھی اکثر آج کل کی بیوٹی پارلر کی پروردہ مہ لقاؤں سے مختلف نہ نکلا سراسر نمائشی اور پھیکا بلکہ ایسا روکھا پھیکا کہ بعد میں ہماری شیرینیء گفتار سے بھی مٹھاس کی کمی پوری نہ ہوئی ۔۔۔ ایسے ہی ایک بار جب ہم کم پیسوں میں بہت سے خربوزے خرید کے مسرور و شادماں گھر پہنچے اور کسی قدر اتراہٹ سے بیگم سے اس وافر کفایت اندوزی کی داد چاہی تو وہ اگلے روز اس صورت ملی کہ بیگم نے بڑے لبھاؤ سے بس یہ سوال پوچھا کہ آخر آپ کو ایک دم ٹھیک ٹھیک یہ کیسے پتا چل جاتا ہے کہ ٹھیلے پہ پڑے کونسے خربوزے میٹھے ہیں اور وہ مہنگے ہونگے اس لیئے انہیں بالکل ہاتھ نہیں لگانا ۔۔۔(سید عارف مصطفیٰ)