تحریر: عاصمہ شیرازی
یہ محض ایک تکلیف دہ اتفاق ہے کہ پاکستان کے دو ہمسایوں کے فوجیوں پر ایک ہی ہفتے میں حملے ہوئے ہیں۔یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ دونوں ہمسائے پاکستان کے خلاف ہم آواز ہیں۔تاہم یہ اتفاقات حادثات نہ بن جائیں، ہمیں اس کے لئے تیار ہونا ہوگا۔صحافی اور سیاسیات کی طالبعلم کے طور پر عالمی اور علاقائی تبدیلیوں، بدلتے حالات اور اُن میں جمع تفریق ہمارے پیشے کا حصہ ہے۔پلوامہ میں ہونے والے خودکش حملے نے بھارت میں ایک ہیجانی کیفیت پیدا کر دی ہے۔ میڈیا، سیاسی جماعتیں اور سول سوسائٹی یک آواز ہیں کہ پاکستان کو سبق سکھانا ہے۔بھارت کی چند آوازیں جنہیں ہم متوازن سمجھتے تھے وہ بھی غم اور غصے میں اپنا بنیادی کام یعنی سوال پوچھنا چھوڑ کر گالم گلوچ پر اُتر آئے ہیں۔
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی عام انتخابات کے انتہائی قریب ہیں اور مشکلات کا شکار ہیں۔ میڈیا مودی سرکار پر دباؤ میں اضافہ کر رہا ہے کہ پاکستان پر حملہ کس قدر ضروری ہے۔غصے میں آگ بگولہ میڈیا اور اس کے زیر اثر عوام کو سمجھانا مشکل ہی نہیں ناممکن دکھائی دے رہا ہے۔ بھارتی میڈیا ٹیون کر لیں تو پاکستان کو سبق سکھانے کے وہ وہ ٹوٹکے بتائے جا رہے ہیں کہ کیا زبیدہ آپا بتاتی ہو ں گی۔یہ بھی محض اتفاق ہے کہ کم از کم گزشتہ دو عام انتخابات میں بھارت کی سیاست کا مرکزی موضوع پاکستان مخالفت ہی رہا ہے اور پاکستان مخالف انتخابی مہم نے بی جے پی کو ہمیشہ فائدہ بھی دیا ہے۔اس بار مودی جی کو فائدہ اٹھانے کے لئے کوئی عملی کارروائی کرنے کے مشورے نوازے جا رہے ہیں۔۔ اور اگر خدانخواستہ ہندوستان کوئی عملی قدم اٹھا لیتا ہے جس میں کہ کشمیر کی سرحد پر کوئی کارروائی وغیرہ کا انتہائی قدم بھی ہے تو خطہ ایک نیوکلیائی جنگ کا شکار ہو سکتا ہے۔یہ بھی محض اتفاق ہے کہ جنوری دو ہزار سترہ میں خارجہ پالیسی میگزین میں نیٹو کے سابق کمانڈر جیمز سٹاوریڈیز کا ایک مضمون چھپا جس میں ’بلیک سوان نظریے‘ اور پاکستان کے ممکنہ طور پر شکار ہونے کی نشاندہی کی گئی۔ بلیک سوان نظریے کی تعریف اچانک رونما ہونے والے وہ خطرناک واقعات ہیں جو کسی بڑے نقصان کا سبب بن سکتے ہیں۔ یعنی اس نظریے کے مطابق کشمیر میں جاری تحریک اس حد تک زور پکڑ سکتی ہے جو کسی بڑے نقصان کا سبب بن جائے۔
ممتاز دفاعی تجزیہ نگار اور مصنف شجاع نواز سے اس معاملے پر کچھ عرصہ پہلے گفت گو ہوئی جس میں انہوں نے بلیک سوان واقعات کا نہ صرف ذکر کیا بلکہ مختلف خدشات کا اظہار بھی کیا۔ ان کے مطابق یہ حادثے کسی سانحے کو جنم دے سکتے ہیں۔یعنی کچھ بھی ہو سکتا ہے۔۔۔مگر سوال یہ ہے کہ اندرونی طور پر شکستہ، منقسم اور معاشی بحران کا شکار مملکت کسی ایسی صورتحال سے نمٹنے کی تیاری کرتی ہے یا نہیں؟اب یہ بھی الگ اتفاق ہے کہ یہ حادثہ بھارتی انتخابات سے محض چند ماہ پہلے ہی ہو جائے جس کا فائدہ پاکستان کو نہیں بلکہ صرف اور صرف بھارت اور خاص کر کے بی جے پی کو ہی پہنچے۔ایران میں ہونے والے حالیہ دہشت گرد حملے اور اس کے بھی پاکستان پر داغے گئے الزام کے بعد بھارت میں اب یہ آوازیں اُٹھ رہی ہیں کہ کیوں نہ ایران کے ساتھ ہاتھ ملا کر پاکستان کے خلاف کارروائی کی جائے۔
یہاں کسی سازشی نظریے سے بچنے کے لئے فقط اتنی سی درخواست ہے کہ ہر سازش اور ہر مخالفت کا جواب ایک موثر، مربوط، واضح اور باضابطہ داخلہ اور خارجہ پالیسی سے دیا جا سکتا ہے۔کسی بھی علاقائی تنازعے کا حصہ بننے کی بجائے بہترین منصوبہ بندی اور حکمت عملی کو آزمانا ضروری ہے۔۔۔ اور ہاں دشمن کے ہر وار فیئر کو ناکام بنایا جا سکتا ہے بشرطیکہ بروقت اپنا گھر درست کر لیا جائے۔(بشکریہ بی بی سی)