تحریر: خرم علی عمران۔۔
کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ کیا فائدہ اس لکھنے لکھانے سے؟ سوائے اس کے کہ دل کو تسکین سی مل رہی ہے، تصویر چھپ رہی ہے، ایک محدود سے حلقے میں کچھ ذرا سی واہ واہ ہورہی ہے، بس۔ کوئی اصلاح کا عمل، کوئی اثرپذیری، ملک و ملت کے معاملات و معمولات میں بہتری کے لیے یہ یا گزشتہ تحریریں کیا کرسکتی ہیں؟ شاید کچھ نہیں۔ اور اب انٹرنیٹ، سوشل میڈیا، ویڈیوز اور کلپس کی بہتات نے تو ویسے بھی ذوقِ مطالعہ کو، جو پہلے بھی قابلِ رشک نہیں تھا، بالکل ہی لبِ دم کردیا ہے۔ جو فوائد کبھی قلم کے ذریعے سے فکر و عمل کا انقلاب لاکر حاصل کیے جاتے تھے وہ معدوم سے معدوم تر ہی ہوتے جارہے ہیں۔ مگر وہ جو کہتے ہیں ناں کہ کوشش کیے جاؤ۔ قطرے قطرے سے دریا بن جاتا ہے۔ اور اگر سمت درست ہو تو رینگ رینگ کر بھی منزل تک پہنچ ہی جاتے ہیں۔ ہم بھی پرورشِ لوح وقلم کرتے رہیں گے۔ اور شاید یہ بھی خوش گمانی ہے کہ اس طرح ایک قلمی و فروغ تحریر کے جہاد میں کچھ نہ کچھ حصہ تو پڑ ہی رہا ہے ناں اپنا بھی۔
اس مختصر سی تمہید کے بعد آمدم برسر مطلب، یعنی وہی اپنا پاکستان، عطائے خدائے مہربان، اہل اللہ کا فیضان، لاکھوں کروڑوں کی جان، عالم اسلام کی امیدوں کا نشان، یہ سرزمین پاکستان۔ جو ایک نظریے پر وجود میں آنے والی ریاست ہے۔ روشن امکانات اور عظیم مستقبل کی امین سرزمین ہے۔ اس کی باتیں بالکل وہی لطف دیتی ہیں جو کسی عاشق کو اس کے محبوب کا ذکر لطف دیتا ہے۔ کسی دل ربودہ سے پوچھئے کہ محبوب کا بار بار ذکر کیسا مزہ دیتا ہے۔ ایک بار، دو بار، سو بار، بار بار جتنا بھی ذکر ہو، دل ہی نہیں بھرتا۔ تو یہ وطنِ عزیز بھی تو محبوب جیسا ہی ہے ناں۔ 23 مارچ یوم پاکستان، جب قرارداد پاکستان کے ذریعے ایک مقصد متعین ہوا اور مل کر ایک عظیم قائد کی قیادت میں منزل کے حصول کا سفر شروع ہوا۔ اور پھر دنیا نے دیکھا کہ معجزے آج بھی ہوا کرتے ہیں اور پھر پاکستان کے نام سے وہ عظیم وطن منصۂ شہود پر جلوہ گر ہوا جسے رہتی دنیا تک مسلمانانِ عالم کی قیادت کرنا تھی۔ مگر پھر کیا ہوا؟ اب تک کی کیا روداد ہے؟ کیا نہیں دیا پاکستان نے ہمیں! لیکن ہم نے جواباً پاکستان کو کیا دیا؟ آئیے اس پر ذرا بات کرتے ہیں۔
پاکستان نے تو ہمیں آزادی، خودمختاری اور اپنا وطن دیا، لیکن جواباً ہم نے کیا کیا؟ ہم نے مثبت بہت کم اور منفی طور پر کیا کیا نہیں دیا پاکستان کو؟ سب سے پہلے تو ایک بڑا سا پاکستان، اتنا بڑا کہ قیام کے بعد سب سے بڑی اسلامی مملکت کا اعزاز اس نے پایا تھا، اس کو ہم نے بڑی محنت اور پچیس سال جدوجہد کرکے کٹ ٹو سائز کیا اور ایک ملک کے دو بنا دینے کا تحفہ اسے دیا۔ پھر ہم نے پاکستان کو ایسے ایسے سیاسی بالخصوص اور سماجی، معاشرتی، قانونی، معاشی، صحافتی اور دیگر بھی کچھ شعبوں میں جہاں حدِ ادب آڑے آجاتی ہے، بالعموم ایسے ایسے نابغے عطا کیے جنہوں نے وہ تہلکہ مچا کر دکھایا اور دکھا بھی رہے ہیں کہ لوگ تہلکہ ڈاٹ کام کو بھول گئے ہیں۔ ان بالغ و نابالغ نابغوں نے ایسے ایسے سیاسی، سماجی، معاشی، معاشرتی، قانونی اور غیر قانونی نظریات و تجربات اور ان کے نتائج اس ملک کو دیے کہ ابھی تک ان کے سائیڈ ایفیکٹس بھگتنا پڑ رہے ہیں پاکستان کو۔
اور عوامی، یعنی میری اور آپ کی سطح پر بھی ہم نے کچھ کم نہیں دیا پاکستان کو۔ پاکستان کیا ہے؟ میں اور آپ ہی تو پاکستان ہیں ناں! تو پھر ہم نے سب سے پہلے جستہ جستہ عوام میں پاکستانیت کو مضبوط و مستحکم کرنے کے بجائے رفتہ رفتہ کمزور کیا۔ ضمناً ایک چھوٹی سی مثال عرض کروں۔ ایک دفعہ ایک ڈپارٹمنٹل اسٹور پر خریداری کے لیے جانا ہوا۔ میں نے ایک پاکستانی بلیڈ کا پیکٹ طلب کیا جو میں استعمال کرتا ہوں۔ اسمارٹ سے نوجوان سیلزمین نے جھٹ کہا کہ یہ تو نہیں ہے ختم ہوگیا، آپ یہ انڈین بلیڈ کا پیکٹ لے جائیں، اس سے زیادہ اچھا اور سستا ہے۔ میں کھول کر رہ گیا مگر رسانیت سے کہا کہ میرے بھائی! تم پاکستانی ہو ناں، تو پھر اپنے ملک کی بنی ہوئی چیز کی برائی کیوں کرتے ہو؟ تم یہ بھی کہہ سکتے تھے کہ یہ انڈین بلیڈ ہے، یہ بھی اچھا ہے، یہ لے لیں۔ تم کو اپنی ملکی پروڈکٹ کو گھٹیا ثابت کرنا ضروری تھا؟
’’ارے یار! پاکستان میں سب چلتا ہے‘‘ یہ فقرہ آپ نے بیسیوں مرتبہ سنا ہوگا۔ جب بھی کوئی اپنی کسی غلطی کا جواز دینے کی کوشش کرے تو ایسا بولنے میں کوئی جھجھک محسوس نہیں کرتا۔ مثلاً سگنل توڑتے ہوئے، جھوٹ بولتے ہوئے، رشوت لیتے ہوئے یا کوئی بھی منفی کام ڈھٹائی سے کرتے ہوئے۔ تو یہ بات کہہ کر ہم گویا اپنے قومی تشخص اور پاکستانیت کا بڑی بے رحمی سے مذاق اڑا رہے ہوتے ہیں۔ اس طرح کی حرکتوں اور سوچ سے ہم نے پاکستانیت کو کیا کمزور نہیں کیا؟
دنیا میں کہیں بھی کوئی انڈین، امریکن، انگریز، جاپانی یا کسی بھی ملک کا باشندہ، کبھی کسی کے سامنے اپنے ملک کو، اس کی چیزوں کو برا نہیں کہے گا۔ مگر ہم جو منہ میں آئے کہہ جاتے ہیں اور جو دماغ میں آئے لکھ جاتے ہیں۔ اپنی اپنی حکومتوں پر ہر ملک و قوم والا تنقید کرتا ہے اور ٹکا کر کرتا ہے، مگر ریاست پر کبھی نہیں۔ ہم حکومت اور ریاست کا فرق فراموش کرکے گالی تک دے دینے سے بھی نہیں چوکتے اور ساتھ ہی ساتھ پاکستانیت کے لمبے چوڑے دعوے بھی ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ ہم نے پاکستان کو در ایں مفہوم یعنی منفی طور پر اور بھی بہت کچھ دیا ہے اورمثبت طور پر شاید بہت ہی کم۔ لیکن پھر بھی نوجوان نسل اور ان پرجوش اور پرامنگ پاکستانیوں سے امید ہے کہ یہ پاکستان کو ان مقاصد تک لے جانے میں اپنا کردار ہم سے بہتر ادا کریں گے، جن مقاصد کے لیے یہ ملک تخلیق ہوا۔(خرم علی عمران)