تحریر: عبدالقادر غوری
بے روزگار کو صحافی نہیں سمجھا جاتا کیونکہ پریس کلب کسی بھی چینل یا ادارے کے لیٹر ہیڈ پر ادارے کی طرف سے گارنٹی لینے کے بعد ہی نئی میمبر شپ یا پُرانی میمبر شپ بحال کرتا ہے ۔اب آتے ہیں آزادی صحافت کی طرف ۔میرا خیال ہے صحافی اُس وقت تک آزاد نہیں ہوتا جب تک وہ کسی نا کسی ادارے میں کام کررہا ہو ۔چینل مالکان کی شرائط و ضوابط اور پالیسیوں کے مطابق ہی کام کرنا ہوتا ہے ۔اپنی من مانی کی تو فوراً نوکری سے فارغ کردیا جاتا ۔ آج کل تو من مانی، غلطی کے بنا ہی ڈاؤن سائزنگ کے تحت ایک ایک چینل نے سو سے اوپر ورکرز کو نکال دیا بنا پیشگی نوٹس دیے ۔جیسا کہ میں نے اوپر لکھا کہ بے روزگار مگر آزاد صحافی کو پریس کلب بھی صحافی نہ مانتے ہوئے میمبر شپ دینے سے انکار کردیتا ہے ۔حالانکہ اس وقت جبری نوکریوں سے نکالے صحافیوں کو پریس کلب کے سہارے کی ضرورت تھی ۔پریس کلب نے اس شرط پر ان کی میمبر شپ کینسل کردی کے اپنے ادارے سے لکھوا کر لاؤ کے تم صحافی ہو ۔صحافی کبھی آزاد نہیں ہوتا ۔ بلکہ وہ دل سے خود آزاد ہونا ہی نہیں چاہتا۔۔اخبار یا الیکٹرونک معلومات مفت میں نہیں دی جاتی۔۔جو آپ کو مفت میں پرچہ بانٹ رہا ہو وہ کسی ایجنڈے پر کام کررہا ہوتا ہے ۔۔
مطلب آزادی صحافت کا نعرہ دراصل میڈیا اخبارات مالکان کو ان کی من مانی کرنے اور میڈیا ملازمین کو جبراً نوکری سے نکالنا، ملازمین کی پامچ ماہ کی تنخوائیں روکنے اور اپنی مرضی سے بیٹھ اپنی مرضی کی خبریں فیڈ کرتے ہیں جو کبھی کبھی رکوا دی جاتی خبر رکنا صحافی کی محنت برباد کرنا ہوتا ہے ۔میڈیا مالکان کی آزادی کو صحافت کی آزادی کا نام دیا گیا ۔
ایک عام سے غریب کم تنخواہ والے غیر شہرت یافتہ غیرسیاسی صحافی کو پریس کلب کی میمبر شپ سے کیا فائدہ ہوتا ہے؟فائدہ جن کو ہوتا ہے وہ ہی پریس کلب کی سیاست کرتے ہیں۔راتوں رات لیڈروں اور ان کے آگے پیچھے واہ واہ جی جی کرنے والوں کی قسمت بدلتے میں خود 12 سال سے دیکھ رہا ہوں۔ باقی عام صحافیوں کو تو میمبر شپ سے کبھی نکالا جاتا ہے کبھی ڈالا جاتا ہے۔سلام ہو چوھدری شجاعت کو جو 2005 میں پلاٹ بانٹ گیا اور صحافی سیاست دانوں کو 15 سے 20 سال یا پھر اس سے بھی زیادہ عرصے تک سیاسی طور پر زندہ رہنے کے لیے آکسیجن مل گیا ۔اب صحافی سیاست دان عام صحافیوں کو الیکشن میں اترنے سے پہلے لالی پاپ دیتے ہیں۔۔چھ سات سال سے تو الیکشن اسی پلاٹ کے آسروں پر الیکشن ہورہا ہے اور پھر الیکشن جیتنے یا ہارنے کے بعد گیارہ مہینے تک عام صحافیوں کی ممبر شب کینسل اور بحالی کا ڈرامہ رچا کر خود کو بڑا لیڈر ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔چل کر یا ناک رگڑتے ہوئے ہمارے پاس آؤ گڑگڑا کر منت سماجت کرو اور پھر ایک دو تین ماہ کے لیے میمبر شب بحال کروالو۔۔اگر دونوں صحافی سیاسی پارٹیاں سنجیدہ ہوتیں تو روز فیلڈ میں اپنے ساتھ کام کرنے والوں کی میمبرشب کبھی کینسل نہیں کرتی۔ایک ایک کو جانتے ہیں ایک ہی ادارے میں کئی کئی سال ساتھ کام کرتے رہے ہیں ۔پھر بھی طاقت کے نشے میں اپنی مخالف پارٹی کو ووٹ دینے کی وجہ سے نام نکال دینا بددیانتی کی بدترین مثال ہے۔دونوں صحافی سیاسی پارٹیوں نے ایک دوسرے کے عام ، خاص اور سوفیصد اصل صحافی ووٹرز کو نکال دیا۔انی دیو اے مذاق اے۔۔
ممبر شپ تو آپ دونوں صحافی سیاسی پارٹیوں کی خوائش کے مطابق آپ کے پاؤں میں پگڑی اور ادارے کا لیٹر رکھنے سے بحال ہوجائے گی۔لیکن لیڈروں کی عزت کیسے بحال ہوگی ۔ الیکشن میں کیے وعدے کیسے وفا کرو گے ۔صحافیوں کی خدمت کرو ان بچاروں پر آقاؤں کی طرح سیاست مت کرو ۔ اور تمام پاکستان کی صحافی برادری کو بتایا جائے کہ 15 سے 20 سال میں اسلام آباد پریس کلب کے صحافیوں کی فلاح وبہبود کے لیے کیے گئے کام کون کون سے ہیں جو واقع احسان ہو اور قابل ذکر ہو۔سوائے میمبر شپ دینے اور پھر چھیننے اور پھر دینے اور پھر میمبر شپ واپس لینے کے ۔
اس بار تو ایسا مذاق ہوا ہے کہ خدا کی پنا ایک گروپ کا صدر ہے تو دوسرے گروپ کا جنرل سیکریٹری ہے دونوں نے اپنی اپنی الگ الگ کمیٹی بنائی اور ایک دوسرے کے ووٹرز سپوٹرز کو نکال باہر پھینکا جس کی وجہ سے ایسے ایسے صحافیوں کو غیر صحافی بنادیا گیا ہے جن کی خبریں آپ روز دیکھتے اور پڑھتے جنہیں پورا پاکستان جانتا ہے کہ وہ صحافی ہے لیکن پریس کلب کے عظیم سیاست دان نہیں جانتے ۔(عبدالقادر غوری)۔۔
(یہ تحریر اسلام آباد میں مقیم نامور صحافی عبدالقادر غوری کی فیس بک وال سے اڑائی گئی ہے۔۔ جس سے عمران جونیئر ڈاٹ کام اور اس کی پالیسی کا متفق ہونا ضروری نہیں۔۔علی عمران جونیئر)