تحریر: عطاالحق قاسمی
کیا آپ احفاظ الرحمٰن کو جانتے ہیں؟ یہ بات میں صرف اپنے عام قارئین سے پوچھ رہا ہوں کیونکہ میرے میڈیا کے سب دوست اس نام سے واقف ہیں مگرشاید اسے بھول چکے ہیں۔احفاظ الرحمٰن اس وقت 75برس کے ہیں اور حلق کے کینسر کا شکارہیں۔ یہ وہ مجاہد ہے جس نے ساری عمر آزادی ٔ صحافت کی جنگ لڑی ہے، پی ایف یو جے کا عہدیدار رہا ہے، جیل گیاہے ، صوبہ بدر ہواہے، پھر انڈرگرائونڈ چلا گیا ہے مگر اپنے مشن سے ایک قدم پیچھے نہیں ہٹا۔ جب مجھے احفاظ کا فون آیا تو مجھے اس کی کوئی بات سمجھ نہیں آئی کیونکہ وہ حلق میں لگے اسپیکر سے بات کررہا تھا۔ چنانچہ پھر اس کے دوست کی مدد سے بات ہوئی۔ یہ عظیم شخص آج بھی ایک اخبار کا میگزین ایڈیٹر ہے اور مجھے یقین ہےکہ آج کی صورتحال پر کڑھتا ہوگا مگراس کی صحت اور عمر آڑے آگئی ہے۔ آج بھی ہمارے درمیان کچھ لوگ موجود ہیں جوصحافت کی لاج رکھے ہوئے ہیں ۔کئی ایک تو شہید بھی ہوچکے ہیں۔ لیکن کیا ہم ان لوگوں کوکبھی یاد رکھیں گے؟ کیا کبھی کوئی جمہوری حکومت ان کی خدمات کا اعتراف کرے گی؟ ہمیں صرف ماضی کے چند جی دار صحافیوں کے نام یاد ہیں ہمیں چاہئے کہ ہم نئی نسل کو نئے ناموں سے بھی روشناس کرائیں۔ کیا کبھی ہماری نصابی کتابوں میں ایک باب یہ بھی ہوگا؟ ان کی قربانیاں بھی تو پاک وطن پاکستان کے لئے ہیں، ان کی قدرکریں اس ’’نسل‘‘ کی حفاظت کریں یہ ختم ہو رہی ہے۔ دوچار ہی تو رہ گئے ہیں ورنہ ایک تعداد تو بُلے لوٹ رہی ہے!
میں نے ابھی برادرم افضل بٹ کو فون کیا مگر فون آف تھا۔ بٹ صاحب پی ایف یو جے (پاکستان یونین آف جرنلسٹس) کے ’’کچھ‘‘ ہیں۔ یہ ’’کچھ‘‘ میں نے اس لئے لکھا کہ اپنی صحافتی برادری میں ، میں چند ایک ہی کو جانتا ہوںمگر یہ بہرحال نہیں جانتا کہ وہ کہاں ہیںاور کیا کر رہے ہیں۔ میں چاہتاہوں کہ اگر اور کچھ نہیں تو پی ایف یو جے احفاظ الرحمٰن کو اسلام آباد بلائے ، ان کے اعزاز میں ان کے شایان شان ایک تقریب منعقد کرے تاکہ ہم سب کو یقین آسکے کہ ’’ہم زندہ قوم ہیں‘‘ اس تقریب سے کسی پر کوئی آنچ نہیں آئے گی کیونکہ احفاظ بہت عرصے سے اپنے کینسرسے جنگ میں مصروف ہیں مگر ایک اور صحافی ہیں وہ صحافتی کینسر کے خلاف سینہ سپر رہے ہیں۔ میں اپنی برادری کی اکثریت سے مایوس نہیں ہوں۔ان میں سے کوئی ایمان کے پہلے درجے پر، کوئی دوسرے درجے پر اور کوئی تیسرے درجے پر فائز ہے چنانچہ یہ تقریب سب کے دل کی آواز ہوگی۔ صرف افضل بٹ کا نام میں نے محض اس لئے لیاہے کہ اس وقت یہی نام ذہن میں آیا مگر میرے مخاطب پی ایف یوجےکے سبھی عہدیدار اور ارکان ہیں۔اک بات اور یہ صرف تقریب نہیں ہم سب کو یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ احفاظ لرحمٰن جس موذی مرض میںمبتلاہیںجو کروڑپتی افراد کوبھی کنگال کردیتی ہے اس وقت ان کے لئے ہم کیاکرسکتے ہیں۔ یہ بہت ضروری ہے۔ آپ نگران حکومت سے بھی مدد لے سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی کئی راستے ہیںجو بٹ صاحب اور ان کے ساتھی تلاش کرلیں گے۔ مجھے امید ہے میری یہ درخواست رائیگاں نہیں جائےگی۔
آخر میں ایک اور ضروری بات ۔ برادرم احفاظ الرحمٰن نے مجھے اپنی تازہ شاعری بھی ارسال کی ہے مگر میں شائع نہیں کرسکتا کہ افسوس میں ایمان کے تیسرے درجے پر فائز ہوں۔ اس کے علاوہ ایک وضاحت بھی احفاظ کے ساتھ میرے ذاتی تعلقات نام کی کوئی چیز وابستہ نہیں شاید زندگی میں ایک دفعہ ان سے ملاقات ہوئی تھی۔ اللہ تعالیٰ انہیں ہمارے درمیان قائم و دائم رکھے اور انہیں آسانیاں عطا فرمائے!۔۔(بشکریہ جنگ)