Khalil Ahmed Qureshi

کیا امریکا عالمی بالادستی کے تصور سے دستبردار ہورہا ہے ؟؟

تحریر :خلیل احمد قریشی

ہر صبح کو طلوع ہونے والے سورج کے بارے میں یہ حقیقت سب کو معلوم ہے کہ اس نے اپنے مقررہ وقت پر غروب ہوجانا ہے ۔اندھیرے کے بعد روشنی ہے اور تاریکی کے بعد اجالا ہے ۔یہ دنیا جب سے معروض وجود میں آئی ہے اس نے طاقت کے اتنے روپ دھارے ہیں کہ ان کاشمار ممکن نہیں ہے ۔سب سے پہلے طاقت کی بات کرلی جائے کہ درحقیقت یہ ہے کیا ؟ طاقت بذات خود کوئی منفی چیز نہیں ہے لیکن اس کا استعمال منفی اور مثبت ہوسکتا ہے ۔ہم چنگیز خان کو ظالم حکمران کہتے ہیں کیونکہ اس کی طاقت کا استعمال انتہائی بھیانک تھا دوسری جانب تاریخ نے ایسے حکمرانوں کا دور بھی دیکھا ہے جو بے انتہاءطاقت رکھنے کے باوجود اس کے مثبت استعمال کی وجہ سے لوگوں کی فلاح کا ذریعہ بن گئے

دنیا میں طاقت کے مراکز ہمیشہ بدلتے رہے ہیں ۔یہاں نمرود گذرے ،شداد بھی ،فرعون بھی ،سکندر اعظم اورامیر تیمور لنگ بھی، یہ تمام شخصیات اپنی زمانے میں طاقت کا منبع تھیں ۔ان کی ہاں میں دنیاکی ہاں تھی اور ان کی نہ میں دنیا کی نہ تھی ۔یہ لوگ وقت کا دھارا بدلنے کی صلاحیت رکھتے تھے ۔اس دور کے لوگوں کو یہ گمان بھی نہیں تھا کہ وقت ان کی طاقت کو خس و خاشاک کی طرح اڑا کر رکھ دے گا ۔مدینہ کے انقلاب ﷺ نے قیصر و کسریٰ ایسی عظیم سلطنت کی بنیادیں ہلائیں اور پھر یہ فاروق اعظم ؓ ایسے حکمران کے پاو¿ں تلے روند دی گئیں ۔بنو امیہ ،بنو عباس اورفاطمی حکمران سیکڑوں سال تک حکمرانی کرتے رہے ۔عرب کے صحرا نشین یورپ میں اندلس تک پہنچ گئے بحر ظلمت میں اللہ اکبر کی صدائیں گونجنے لگیں ۔

ہندوستان نے اشوک اعظم کا دور بھی دیکھا جو اپنے وقت کا سب سے بڑا بادشاہ تھا اور پھر ہندوستان کی اسی سرزمین پر عرب سے آنے والا ایک 17سالہ نوجوان محمد بن قاسم حکمران بن گیا ۔وہ ہندوستان جہاں اسلام کا دور دور تک نشان نہیں تھا اسی ہندستان پر سیکڑوں سال مغل مسلمان حکمرانی کرتے رہے ۔لینن نے روس میں سوشلزم کے نام پر انقلاب برپا کیا ،نپولین بونا پارٹ فتح کے جھنڈے گاڑھتا رہا ،جرمنی کا ہٹلر اوراٹلی کے مسولینی نے حتی المقدور اپنی طاقت کا اظہار کیا لیکن پھر برطانیہ ایک عظیم طاقت کے طور پر سامنے آیا ۔برطانیہ ایسی ریاست تھی جس کے بارے میں کہاجاتا تھا کہ اس کی حدود میں سورج کبھی غروب نہیں ہوتا ۔برصغیر سے افریقہ تک اس کی نوآبادیات تھی لیکن اس کی طاقت کا سورج آخر کار غروب ہوہی گیا ۔

آج سے ساٹھ ستر سال قبل امریکا اور سویت یونین دنیا کی نئی طاقت کے طور پر ابھرے ۔ان دونوں ممالک نے وہی سب کچھ کیا جو ماضی کے طاقت ور حکمران اور ریاستیں کرتی رہی ہیں ۔کہا جاتا ہے کہ منفی طاقت کے استعمال کا کوئی مذہب نہیں ہوتا ،مسلمان اگر ظالم حکمران ہے تو پھر چرچوں کو اصطبل بنایا جاتا ہے ،عیسائیوں نے مساجد کو گرجا گھروں میں تبدیل کردیا ،ہندو مساجد شہید کرتے رہے تو ثابت ہوا کہ منفی طاقت بذات خود ایک مذہب ہے ۔امریکا اور سویت یونین کے دور میں چھوٹے ممالک کو ایک آسانی یہ میسر تھی کہ یہ دونوں ممالک کسی ایک کا انتخاب کرکے اس کے بلاک میں شامل ہونے میں اپنی عافیت سمجھتے تھے ۔سرد جنگ ایک طویل عرصے تک جاری رہی ،طاقت کا توازن کسی نہ کسی حال میں موجود تھا کہ سویت یونین نے افغانستان میں داخل ہونے کی غلطی کردی ۔امریکا نے اس کو غنیمت جانا اور پاکستان سمیت اپنے دوست ممالک کے ساتھ مل کر لینن کے نظریے کو کابل میں شکست دے دی ۔سوویت یونین کا ٹوٹنا دنیا کے لیے ایک حیران کن بات تھی کیونکہ اس طاقت کا جو توازن برقرار تھا وہ ختم ہوگیا اور تمام ممالک نے نئی صف بندی شروع کردی ۔امریکا دنیا میں یونی پولر طاقت بن کر سامنے آیا ۔

کرہ ارض نے وہ وقت بھی دیکھا کہ جب دنیا کے بیشتر ممالک میں حکومتیںامریکا کی مرضی سے بنائی جاتی تھیں ۔کسی ملک کی فوج کا سربراہ کون ہوگا اس کا فیصلہ بھی امریکا بہادر کرتا تھا ۔سی آئی اے ،ایف بی آئی اور امریکا کے بغل بچے اسرائیل کی انٹیلی ایجنسی موساد پوری دنیا کی پالیسیوںمیں اکھاڑ پچھاڑ کرتیں ۔تیسری دنیا کی معاشی صورت حال کو سختی سے مانیٹر کیا جاتا ۔یہاں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے سامراجی ادارے پیدا کیے گئے اور دنیا بھر میں جنگ و جدل کی صورت حال پیدا کی جاتی تاکہ اسلحہ کی تجارت چمکتی رہی ۔امریکا دنیا میں اسلحہ فروخت کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے اور اس کے لیے دنیا میں بدامنی کا آسیب برقرار رکھنا انتہائی ضروری ہے ۔”یہ اکنامک ہٹ مینز“ طاقت کا اصل منبع رہے ہیں تاہم اب صورت حال بدل رہی ہے ۔وہ ممالک ترقی پذیر ممالک جہاں سیاسی عدم استحکام نہیں اور وہاں معاشی صورت حال بہتر ہے وہ عالمی استحصالی معاشی نظام کی زنجیروں سے خود کو بتدریج آزاد کروارہے ہیں ۔بھارت اور بنگلہ دیش اس کی ایک بہترین مثال ہیں جو آج تک صرف ایک ایک مرتبہ آئی ایم ایف کے پاس گئے ہیں ۔پاکستان میں صورت حال مختلف رہی ہے ۔ہم 17بار آئی ایم ایف سے استفادہ حاصل کرچکے ہیں لیکن ہماری معاشی صورت حال جوں کی توں ہے ۔پاکستان کے نئے حکمران کہتے ہیں اگر ہم آئی ایم ایف کے پاس جائیں گے تو یہ ہمارا آخری پروگرام ہوگا ۔اس ضمن میں پاکستان کو سعودی عرب ،متحدہ عرب امارات اور چین سے اچھے مالیاتی پیکجز ملے ہیں جس سے آئی ایم ایف کے دباو¿ میں کمی آئی ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ پاکستان اور چین باہمی تجارت اپنی کرنسی میں کرنے کا معاہدہ کرچکے ہیں جو یقیناً ایک بڑا فیصلہ ہے ۔ادھر یورپین ممالک میں ماسوائے برطانیہ کے ایک کرنسی رائج ہے ۔بظاہر ہمیں اس وقت ڈالر بام عروج پر نظر آتا ہے لیکن یہ وہ ٹائی ٹینک ہے جو کسی بھی وقت ڈوب سکتا ہے ۔

کہتے ہیں کہ تاریخ کا سب سے بڑا سبق یہی ہے کہ اس سے کوئی سبق نہیں سیکھتا ۔ستم ظریفی ہے کہ وہ امریکا جو دنیا میں حکومتوں کے فیصلے کرتا تھا اس کی اسٹیبلشمنٹ اور وہاں کے نوجوانوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کی شکل میں ایک ایسا ”موم کی ناک“والا حکمران منتخب کیا جو عقل سے عاری ہے ۔امریکی فیصلے اب سینیٹ اور کانگریس میں نہیں کہیں اور ہورہے ہیں ۔امریکا ماضی میں جس تیر سے دنیا کو شکار کرتا رہا اب محسوس ایسا ہوتا ہے کہ خود ہی اس تیر کا نشانہ بننے والا ہے ۔امریکا کی تاریخ میں پہلی مرتبہ یہ ہورہا ہے کہ اہم وزارتوں اور عہدے پر فائز رہنے والے شخص کو چند دنوں کے بعد ہی عہدے سے ہٹادیا جاتا ہے ۔اب تک تین وزرائے خارجہ کو تبدیل کیا جاچکا ہے ۔جس سویت یونین کو امریکا نے افغانستان میں شکست دی بالآخر وقت اس کو بھی لے کر افغانستان پہنچ گیا ۔ناٹو کے 45ممالک سمیت امریکا بہادر گزشتہ 17سال سے افغان سرزمین پر ٹامک ٹوئیاں کرتا رہا اور ایک کھرب ڈالر سے زائد رقم خرچ کرنے کے باوجود نامراد رہا ۔افغانستان میں کی گئی تاریخی غلطیاں آنے والے وقت میں امریکا کے لیے ناسور بننے جارہی ہیں ۔افغان سرزمین سے اپنی افواج کو نکالنے کے لیے وہ پاکستان سمیت دیگر ممالک سے مدد طلب کررہا ہے ۔جن طالبان کے خلاف وہ 17سال سے برسرپیکار تھا انہی طالبان سے مذاکرات کیے جارہے ہیں اور پاکستان سے اس میں کردار ادا کرنے کی استدعا کی جارہی ہے ۔مشرف کے دور میں پاکستان کو ایک کال پر ڈھیر کرنے اور اس کو پتھر کے دور میں دھکیلنے کی دھمکیاں دینے والا امریکا اب پاکستان کے درکا سوالی بن چکا ہے ۔

عالمی تناظر میں دیکھا جائے تو ولادی میر پیوٹن کی قیادت میں روس ایک مرتبہ پھر خم ٹھونک کر کھڑا ہوگیا ہے اور سب سے بڑھ کر چین جو اس وقت دنیا کی سب سے بڑی معاشی قوت بننے جارہا ہے ۔ترکی کو رجب طیب اردگان کی صورت میں ایسا حکمران ملا ہے جو خلافت کا احیاءچاہتا ہے ۔پاکستان میں ایک متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والا عمران خان حاکم ہے جو امریکا سے برابری کی سطح پر تعلقات کا خواہاں ہے ۔ماضی میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا کہ کوئی پاکستانی حکمران امریکی سفیر تک کو دبنگ انداز میں جواب دے سکے لیکن یہاں عمران خان امریکی صدر کو براہ راست جوابات دے رہے ہیں ۔90سالہ مہاتیر محمد ایک مرتبہ پھر اس ضعیف العمری میں ملائشیا کی قیادت کررہے ہیں اور مسلم ممالک کے اتحاد کے خواہاں ہیں ۔عرب میں امریکا کے زیر اثر حکمران اپنی طاقت کھورہے ہیں اور وہاں عوامی انقلاب دستک دے رہا ۔

آج کل عالمی میڈیا پرامریکی افواج کی مختلف ممالک سے واپسی پر بحث عروج پر ہے ۔ماہرین سوالات اٹھارہے ہیں کہ کیا امریکا پسپائی کے راستے پر گامزن ہے ؟اگر ایسا ہی ہے تو کیا وہ عالمی بالادستی کے تصور سے دستبردار ہورہا ہے یا پھر یہ کوئی نئی حکمت عملی ہے ۔شام اور افغانستان سے فوجوں کی واپسی اس بات سے مشروط ہے کہ چین ،روس اور پاکستان اس کے مفادات کا تحفظ کریں گے ۔ویت نام سے لے کر عراق ،افغانستان اورشام تک تباہی پھیلانے والے امریکی بیڑوں پر تعینات 8لاکھ سے زائد فوجی شدید نفسیاتی عوارض میں مبتلا ہورہے ہیں ۔ان کے علاج پر سالانہ 60ارب ڈالر خرچ ہوتا ہے ۔رپورٹس کے مطابق ہر ماہ 22امریکی فوجی ذہنی تناو¿ کی وجہ سے خود کشی کرلیتے ہیں جو خوفناک صورت حال ہے ۔

یہ تمام صورت حال اس بات کی غمازی ہے کہ دنیا بدل رہی ہے ۔شاید اب وہ دور آنے والا ہے جہاں کوئی ایک ملک دنیا کو کنٹرول کرنے کی طاقت نہیں رکھ سکے گا ۔آنے والا دور بلاکس کا دور ہے ۔چین کی قیادت میں روس ،ترکی،ایران اور پاکستان جیسے ممالک پر مشتمل اگر کوئی بلاک معروض وجود میں آجاتا ہے تو امریکا کی واحد یونی پولرطاقت کی حیثیت ڈگمگاجائے گی اور پھر ان حالات میں جو ممالک اپنے پتے بہتر انداز میں کھیلیں گے وہ اس نئی دنیا کی قیادت کرنے والے ممالک میں شامل ہوں گے ۔

How to Write for Imran Junior website

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں