تحریر: خرم علی عمران۔۔
دیکھیں مسئلہ یہ نہیں کہ ہم گوناگوں مسائل کا شکارہیں،بہت سی اقوام مسائل کا شکار ہیں۔ مسئلہ یہ بھی نہیں ان مسائل سے لاعلم ہیں،سینکڑوں ہزاروں صفحات لکھے جا چکے ہیں اور لکھے جارہے ہیں،بیانات اور تقاریر ہو رہی ہیں مسائل حاضرہ اور گزشتہ پر، انفارمیشن کا دور ہے سب کو پہلے سے زیادہ پتہ ہے،اور کچھ کو تو یعنی سمجھ رہے ہیں نا آپ! کچھ زیادہ ہی پتہ ہے کہ یہ وطن عزیز، یہ ملک خداداد ،اسکے عوام الناس، اسکے ادارے، اسکے بڑے اسکے چھوٹے کن کن مسائل کا شکار ہیں،یہ کیسے پیدا ہوئے اور کیوںکر پیدا ہوئے، مسئلہ یہ بھی نہیں کہ ان مسائل کو حل کرنے کی نیت نہ ہو ،نیت بھی ہے گو کہیں کہیں ہی ہے،مگر ہے ضرور! پھر آخر مسئلہ ہے کیا؟
مسئلہ یہ ہے کہ حل سمجھ نہیں آرہا ہے، یہ گھمبیر مسائل، یہ پیچیدہ معاملات، یہ سارا گند، یہسیاسی،سماجی،معاشی،معاشرتی،عدالتی،اخلاقی،سماجی،تعلیمی بدعنوانی سے جنم لینے والے مسائل جو کہ اب پہاڑ بن چکے ہیں تو ان پہاڑوں کو کاٹنے کا تیشہ آخر کہاں ہے ،کس فرہاد کے پاس ہے، کیسے یہ گند صاف ہوگا،کیسے یہ مسائل حل ہونے کی کوئی صورت پیدا ہوگی،ابھی ایک مسئلہ حل ہونے نہیں پاتا کہ دوسرا آنکھیں دکھانے لگتا ہے،بقول منیر نیازی مرحوم،ایک دریا پار کرتے ہی دوسرا سامنے آجاتا ہے،اور رفتہ رفتہ وہ میری ہستی کا ساماں ہونے کے مصداق یہ مسائل ہماری زندگی کا ساماں ہوگئے، عوام الناس کا ستیاناس ہونے کو ہے بلکہ ہو ہی گیا ہے ،مگر طفلِ تسلیاں، دلاسے ، آئندہ کی خوشخبریاں دینے کے علاوہ کچھ ٹھوس یا عملی قدم یا حل فی الحال تو نظر نہیں آرہا ہے مستقبل کی خدا جانے،عوام الناس اب بھی کچھ پر امید ہیں کہ خدا بہتر کرے گا،اور وہ ضرور کرے گا کہ وہ بندے سے اس کے گمان کے مطابق معاملہ فرماتا ہے،لیکن جو ذمہ داران ہیں، باوسائل ہیں وہ صرف باتیں بگھارنے اور نمائشی اقدامات کے سوا زیادہ کچھ نہیں کرتے نظر آرہے ہیں،
آجکل عوام کی ذہنی و نفسیاتی حالت،امید وبیم کی کیفیت،کبھی مایوسی کا حملہ،کبھی آس کا جگنوں، کبھی خوش کبھی برہم اور کبھی سب درہم برہم والی ہوگئی ہے، تو اسپر ایک پرانی حکایت یاد آئی کہ ایک بادشاہ کو پھوڑا نکل آیا اور بڑھتا ہی چلا جارہا تھا، شاید کینسرکا ہوگا،بادشاہ اچھا آدمی تھا،رعایا کا خیال کرنے والا ہمدرد حکمراں تھا،عوام و خواص میں تشویش کی لہر بلکل آج کی طرح کی دوڑ گئی، اطباء و حکماء آئے طرح طرح کے نسخے آزمائے گئے،پر “مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی” آخر ایک بہت پرانے تجربہ کار ضعیف استاد الاساتذہ حکیم صاحب تشریف لائے اور کافی دیر تک پھوڑے کا معائنہ کرنے کے بعد کسی سوچ میں گم ہوگئے، پھر بادشاہ سلامت کے استفسار پر کہا کہ عالی جاہ علاج تو ہے پر ذرا مشکل ہے پتہ نہیں آپ مانیں یا نہ مانیں! بادشاہ نے علاج پوچھا تو فرمایا کہ ایک اٹھ نو برس کے چند مخصوص خصوصیات کے حامل بچے کو بوقت فجر ذبح کرکے اسکا دل نکال کر ایک دوا بنے گی جو دو دن میں آپ کا پھوڑا ٹھیک کردے گی اور اگر ایسا نہ ہو تو میرا سر قلم کرادیجئے گا،یہ عجیب علاج سن کربادشاہ بڑا پریشان ہوا ،وزیر اعظم سے مشورہ کیا ،وہ بولا ،جناب آپ کی جان بچانے کے لئے ایک بچے کی قربانی کوئی بڑی بات نہیں، بادشاہ کا دل نہ مانا،کہا مفتی اعظم کو بلائیے،وہ تشریف لائے اور ساری بات سن کر درباری سرکاری علماء کی طرح ایک بچے کی جان لینے کا فتوی دے دیا ،بادشاہ پھر بھی پوری طرح مطمئن نہیں ہوا کہ دردمند دل رکھتا تھا تو اس نے قاضی القضاۃ یعنی اسوقت کے چیف جسٹس سے مشورہ کیا وہ بولے کہ جناب آخر سپاہی بھی تو میدانِ جنگ میں جان دیا ہی کرتے ہیں،قانون کی رو سے آپ کی جان بچانے کے لئے ایک بچے کی جان لی جاسکتی ہے، آخر بادشاہ نے اعلان کرایا اور چند غریب غرباء اپنے اپنے بچے منہ مانگے انعام کی امید میں برائے قتل لے آئے،حکیم نے ایک بچہ منتخب کرلیا اور بادشاہ نے سب کو تھوڑا بہت اور منتخب بچے کے ماں باپ کو خوب درہم و دینار دے کر بھیج دیا اور بچے کو پیار سے کہا کہ بیٹا،آج محل میں رہو،خوب گھومو پھرو،کھاؤ پیو،، اور خدام کو یہ ہدایت کر دی گئی کہ اسے خوش رکھا جائے،مگر وہ بچہ بلکل گم صم رہا ،نہ کچھ کھایا نہ پیا،صبح ہوئی سب جمع ہوئے،بادشاہ حکیم صاحب،مفتی صاحب،قاضی القضاۃ صاحب، وزیر اعظم وغیرہ چمڑہ بچھایا گیا اور بچے کو چت لٹا کر جلاد نے تلوار سونت لی، سب کھڑے دیکھ رہے تھے،کہ یکایک بچہ آسمان کی طرف دیکھ کر زور سے ہنسا، یہ عجیب بات دیکھ کردل گرفتہ بادشاہ چونک اٹھا،اس نے جلاد کو اشارے سے روکا اور بچے کے پاس جاکر بولا،بیٹے،تو آسمان کی جانب دیکھ کر کیوں ہنسا،بچے نے تمام وقت میں پہلی بار زبان کھولی اور بولا،جنابِ عالی جانے دیں،آپ اپنا کام کریں،اپنی جان بچائیں،مجھے قتل کرکے، بادشاہ نے کہا کہ نہیں۔ پہلے تم بتاؤ،کئی بار اصرار پر بچہ یوں گویا ہوا” بادشاہ سلامت،حکمراں کی مثال رعایا کے لئے ایک خاندان کے بڑے ،ایک سرپرست جیسی ہوتی ہے،رعایا کو مان ہوتا ہے کہ بادشاہ ہمیں آسانیاں دے گا،مشکلات دور کرے گا، تو یہاں تو آپ ہی میری جان کے گاہک بن گئے،پھر آدمی کو علماء سے امید ہوتی ہے کہ وہ ناحق نہ ہونے دیں گے،انہوں نے بھی مجھ بے گناہ کی جان لینے کے جواز کا فتوی دے دیا،پھر آدمی کو عدالت سے حق و انصاف ملنے کی امید ہوتی ہے لیکن وہاں بھی قانونا میری جان لینا جائز ہوگیا،پھر آدمی خصوصا بچے کو سب سے زیادہ امید اپنے ماں باپ سے ہوتی ہے کہ وہ اپنے ہوتے ہوئے اپنی اولاد پر کوئی مصیبت،کوئی گرم ہوا کا جھونکا نہ آنے دیں گے، لیکن وہ بھی درہم دینار لے کر مجھے آپ کے ہاتھوں بیچ گئے،ابھی جب جلاد نے مجھے قتل کے لئے لٹایا تو میری نگاہ آسمان پر چلی گئی تو میری ہنسی نکل گئی کہ زمین والوں سے تو ساری امیدیں ٹوٹ چکیں،دیکھیں اب آسمان والا کیا کرتا ہے! بس یہ بات تھی جناب، بچے کی بات سن کر دردمند بادشاہ کی آنکھ میں آنسو آگئے،اس نے کہا کہ میرے بچے ،جا،تو آزاد ہے،خوش رہ۔ میرا اللہ مالک ہے،اور یہ کہہ کربچے کو بحفاظت اس کے گھر بھجوا دیا اور محل میں جاکر سوگیا،جب سو کر اٹھا تو اس کا پھوڑا غائب ہو چکا تھا”
تو صاحبوں! فی الحال،وطنِ عزیز کے عوام الناس کی اکثریت کی حالت بھیاس بچے ہی جیسی تقریبا ہوگئی ہے کہ لوگ پے در پے مصائب و مسائل، مہنگائی،بے روزگاری میں روز افزوں اضافہ، معاشی عدم استحکام کے نتیجے میں پیدا ہونے والی غیر یقینی کی صورتحال سے جنم لینے والے خدشات اور دیگر کئی اسی طرح کے معاملات کا سامنا کرتے کرتے اب نڈھال سے ہوتے جارہے ہیں اور زمین والوں سے ذرا مایوس سے ہی ہوتے جارہے اور نظر آرہے ہیں،بار بار اوپردیکھتے ہیں کہ اب اسمان والا کیا کرتا ہے۔ اصل میں وہ جو علامہ اقبال جوابِ شکوہ میں فرما گئے ہیں یعنی گویا جوابِ باری تعالی بزبانِ شاعر کے انداز میں۔۔ کہ ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں۔۔۔ راہ دکھلائیں کسے راہروِ منزل ہی نہیں۔۔ بس یہی بات ہے کہ شاید ہم بھی خود ہی ان مسائل کا حل چاہتے ہی نہیں ورنہ اس کا کرم و فضل تو ہمیشہ ہی بے مثال و لا یزال ہے لیکن ہم ہی بس ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظرِ فردا کی مثال بنے بیٹھے ہیں کہ کوئی آئے گا اور جھٹ پٹ سب مسئلے حل ہوجائیں گے۔ کیا ایسا ہوسکے گا؟( خرم علی عمران)۔۔