تحریر : علی عمران جونیئر
دوستو، ایک خبر کے مطابق جنوبی کوریا کی ایک ٹیکنالوجی کمپنی نے کتے کے بھونکنے کی آواز کا مفہوم بتانے والا پٹہ تیار کرلیا ہے۔پیٹ پلس نامی کمپنی نے کتوں کے لیے ایک ایسا پٹہ بنایا ہے جس میں مصنوعی ذہانت پر تیار کردہ آلہ نصب کیا گیا ہے۔ پٹے پر لگا یہ آلہ کتے کے بھونکے کی آواز کا مفہوم انسانوں تک پہنچانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔پٹے میں لگی ڈیوائس یا آلہ اپنے ڈیٹا بیس میں رکھے کتے کی 50 نسلوں کے 10 ہزار بھوکنے کی آواز کے نمونوں سے موازنہ کرکے یہ ترجمانی کرتی ہے کہ اس وقت بھوکنے والے کتے کے احساسات کیا ہیں یعنی وہ خوش ہے، پریشان یا اداس ہے یا پھر وہ اس وقت کھیلنا چاہتا ہے۔اس پٹے کو کار آمد اور اس کے نتائج کو زیادہ سے زیادہ درست بنانے کے لیے سیول نیشنل یونیورسٹی میں آلے کی تیار پر طویل تحقیقی کام بھی کیا گیا جس کے بعد آلات میں احساست کی درست شناخت کے پیمانے پر اس پٹے کی درجہ بندی 80 فی صد تسلیم کی گئی۔ پیٹ پلس کمپنی کا کہنا ہے کہ جیسے جیسے اس آلے میں کتے کی آواز کا ڈیٹا جمع ہوتا چلا جائے گا اس کے کام کرنے کی صلاحیت بھی مزید بہتر ہوجائے گی۔اپنے پالتو کتوں کے لیے یہ پٹہ خریدنے والے اس میں لگی ڈیوائس کو اپنے اسمارٹ فون سے منسلک کرسکتے ہیں اور اس کے استعمال کی لیے بنائی گئی ایپ کی مدد سے اپنے کتے کی روزمرہ سرگرمیوں، سونے کے معمول، خوراک کی تفصیل وغیرہ بھی جان سکتے ہیں۔ اس کی مدد سے پالتو کتے کی روز مرہ صحت کی نگرانی بھی کی جاسکتی ہے۔
آپ لوگ سمجھ تو گئے ہوں گے کہ آج موضوع ۔۔کتا ۔۔ہی ہے۔۔ ہمارے یہاں کراچی میں نوجوان نسل کے دل کو کوئی چیز بھاجائے یا کسی کا دماغ بہت تیز چل رہا ہوتو اس کے دوست اسے فوری کہتے ہیں۔۔یار تیرا تو ’’کتا دماغ‘‘ ہے۔۔ اسی طرح کسی نے کوئی ’’باریک‘‘ کام کیا ہو تو اس کے دوست اس کی حوصلہ افزائی ایسے الفاظ میں کرتے ہیں۔۔یار تُو بہت ’’کتی چیز‘‘ ہے۔۔ کچھ مہذب لوگ یا احباب یقینی طور پر اس ساری اوٹ پٹانگ باتوں سے اتفاق نہ کرتا ہو۔۔ لیکن جو کچھ ہمارے معاشرے میں ہورہا ہے، ہم اسے ہی بیان کرتے ہیں۔۔ بہت کچھ ایسا جو کسی زمانے میں اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا ،اب ہمارے معاشرے میں عام ہوگیا ہے۔۔ جیسے۔۔’’یار‘‘ ایک تہذیب سے گرا ہوا لفظ سمجھا جاتا ہے۔۔لیکن اب ہمارے معاشرے میں نوجوان کوئی جملہ اس کے بغیر بول ہی نہیں پاتے، یہاں تک کہ لڑکیاں بھی ایک دوسرے کو ’’یار‘‘ کہہ کر مخاطب ہوتی ہیں۔۔
ذکر چل رہا ہے کتے کا۔۔جدید سائنس کی مدد سے اب ہم کتے کی زبان بھی سمجھ سکیں گے۔۔ کتنا عجیب لگے گا جب ہم کتے کو لات ماریں گے تو جواب میں وہ ہمیں ماں ، بہن کی گالیاں دے رہاہوگا، اور ہم سمجھنے کے باوجود اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے۔۔ وہ کیسی صورتحال کیسی ہوگی جب آپ کتے کو بولیں گے کہ جاؤ ،جو گیند ابھی پھینکی وہ لے کر آؤ۔۔ جواب میں کتا بولے گا۔۔ کسی اچھے حکیم سے علاج کرالو، تاکہ گیند پھینکنے کا کیڑا ختم ہوسکے۔۔ سنا ہے کہ امریکا کی ایک ریاست میں کتے کو میئر بنایاگیا ہے۔۔امریکی ریاست کینٹکی کے چھوٹے سے قصبے میں دریائے اوہائیو کنارے مقیم ریبٹ ہیش ہسٹوریکل سوسائٹی نامی کمیونٹی نے میئر شپ الیکشن میں ووٹنگ نتائج کے بعد فرانسیسی کتے ولبر کو میئر منتخب کرلیا ہے۔کمیونٹی کے مکینوں کی جانب سے ایک امریکی ڈالر فنڈکے ساتھ ووٹ کاسٹ کیے گئے جس کے نتائج میں ولبر بیسٹ نامی فرانسیسی بل ڈوگ کامیاب قرار پایا جس نے 13 ہزار 143 ووٹ لیے۔نومنتخب میئر کا اعلان ہسٹوریکل سوسائٹی کے تصدیق شدہ فیس بک پیج پرموجود ہے۔۔یہ پہلا موقع نہیں ہے جب ریبٹ ہیش کمیونٹی کا میئر ایک کتا منتخب کیا گیا ہو بلکہ 1990 سے کمیونٹی ہر 4 سال کے لیے کتوں کو ہی اپنا میئر منتخب کرتی آرہی ہے۔۔آپ لوگ اس سے اندازہ کرلیں کہ امریکا میں کتے کو کتنی اہمیت دی جاتی ہے اور ہمارے معاشرے میں کتے کی کیا ’’ویلیو‘‘ ہے۔۔ اسی طرح ہم یہاں گدھے کو جتنا برا سمجھتے ہیں ،یہی گدھا امریکا میں اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔۔
کہتے ہیں کہ ایک معروف لیڈر جس سے عوام کی اکثریت نفرت کرتی ہے کی کار کے نیچے آ کر ایک کتے کا بچہ مر گیا۔۔لیڈر نے اپنے ڈرائیور سے کہا کہ جا کر معلوم کرو کہ یہ کس کا کتے کا بچہ تھا۔جب ڈرائیور واپس آیا تو ’ا س کے گلے میں پھولوں کے ہار تھے۔لیڈر نے پوچھا کہ یہ کیا۔۔ڈرائیور بولا۔۔۔۔سر میں نے صرف یہ کہا تھا کہ میں آپ کا ڈرائیور ہوں۔۔۔ کتے کا بچہ مر گیا ہے تو لوگوں نے اگلی بات سنی ہی نہیں۔۔
ایک چودھری صاحب شہر گئے۔۔ وہاں پر اس کو ایک گھر میں ملازمت مل گئی۔ صاحبِ خانہ نے اس کو سمجھایا کہ دیہاتی طور طریقے سے نہ بلایا کرو بلکہ جب بھی کسی کے بارے میں بات کرو تو صرف اس کا نام نہیں لینا بلکہ اس کے ساتھ صاحب یا صاحبہ ضرور لگایا کرو۔تھوری دیر بعد چودھری بھاگتا ہوا آیااور ہانپتے ہوئے کہنے لگا۔۔ جناب آُ پ کے کتے صاحب نے پڑوسی صاحبہ کی مرغی صاحبہ کو پکڑ لیا ہے۔ ۔ہمارے دوست نے ایک روز باباجی سے مذاق کرتے ہوئے کہا۔۔آج میرے کتے نے انڈا دیا ہے۔۔ باباجی نے ڈانٹتے ہوئے کہا۔۔پاگل ہوا ہے کیا،کتا کب سے انڈا دینے لگا؟؟ ہمارے دوست نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔یہ ہمارا اسٹائل ہے، ہم نے اپنی مرغی کا نام ’’کتا‘‘ رکھا ہے۔۔جس طرح ایک بالی وڈ مووی میں کرینہ کپور نے اپنے کتے کا نام فیس بک رکھا ہوا تھا۔۔ایک صاحب بہت غصے سے چلا رہے تھے۔ ۔ ’’آج میں اپنے کتے کو جان سے مار دوں گا‘‘ کسی نے پوچھا’’اس کا قصور کیا ہے؟‘‘وہ صاحب کہنے لگے’’قصور پوچھتے ہیں آپ، میں نے مرغی پالی تو وہ کھا گیا۔ طوطا رکھا تو اسے زخمی کر دیا۔ خرگوش رکھے ان کو بھگا دیا۔ اب میرا دوست پندرہ دن سے آیا ہوا ہے اور ابھی تک کچھ نہیں کر سکا۔‘‘۔۔ایک کسان کھیت کی تیاری میں تھا کہ گیدڑ پاس آنکلا۔ اس نے کسان سے پوچھا۔۔جناب کیا فصل اگانے کا ارادہ ہے؟؟ کسان نے کہا، ہاں خربوزے لگاؤں گا۔۔ گیدڑ خوش ہوکر بولا۔۔واہ پھر تو میری موجاں ہی موجاں۔۔کسان نے کہا۔۔نہیں، میں کھیت کے گرد باڑ بھی لگواؤں گا۔۔ گیدڑ نے کہا۔۔تو کیاہوا، میں باڑ کے نیچے سے داخل ہوجاؤں گا۔۔ کسان بولا۔۔میں کھیت کے گرد دیوار بھی بنوا رہا ہوں۔۔گیدڑ نے کہا۔۔میں دیوار پھلانگ لیا کروں گا۔۔کسان کہنے لگا۔۔میں کھیت کی رکھوالی کیا کروں گا۔۔گیدڑ بولا۔۔ جب تم سونے جاؤگے، میں داخل ہوکر خربوزے کھالیا کروں گا۔۔ اچانک کسان کو یادآیا کہ گیدڑ کتے سے ڈرتے ہیں۔۔ تو وہ مسکرا کربولا۔۔میں کھیت کی رکھوالی کو کتے رکھ لوں گا۔۔گیدڑنے غور سے کسان کو دیکھا اور چہرے پر افسردگی طاری کرتے ہوئے کہنے لگا۔۔اوہ جٹا! ایہہ تے فیر مرداں والی گل نہ ہوئی نا (یہ تو کوئی مردوںوالی بات نہ ہوئی ناں)اور دم دبا کر آگے نکل گیا۔۔
چوہا بلی سے ڈرتا ہے،بلی کتے سے ڈرتی ہے،کتا بندے سے ڈرتا ہے،بندہ بیوی سے ڈرتا ہے،بیوی چوہے سے ڈرتی ہے،پس ثابت ہوا کہ دنیا گول ہے۔۔ایک چوہیا اپنے تین ننھے ننھے بچوں کے ساتھ سیر کررہی تھی کہ ایک بلی سامنے آگئی۔ اس سے پہلے کہ بلی ان پر جھپٹتی، چوہیا اپنی پوری طاقت سے چلائی ۔۔ بھوں بھوں غررررررر۔ بھوں بھوں۔ بلی ہکا بکا رہ گئی۔ اور کنفیوز ہو کر الٹے قدموں واپس چلی گئی۔ ۔ چوہیا مڑی اور اپنے بچوں سے مخاطب ہوکر سمجھانے لگی۔۔ دیکھا بچو! تعلیم کے فائدے۔ اب تم جان گئے ہوگے کہ مادری زبان کے علاوہ کوئی اور زبان سیکھنا کتنا ضروری ہے۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔ہر تکلیف ایک سبق سکھاتی ہے ا ور ہر سبق تمہیں ایک بہتر انسان بناتا ہے۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔