sahafio ke tweets kon delete karata tha

کتابیں منگوانے کیلئے ڈالرز نہیں، رؤف کلاسرا کا انکشاف۔۔

سینئر صحافی اور کالم نویس رؤف کلاسرا کا کہنا ہے کہ پاکستان میں کتابیں منگوانے کیلئے بینک ایل سیز کھولنے پر تیار نہیں، جس کا نگراں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے بھی نوٹس لے لیا ہے۔ دنیانیوز میں تحریر اپنے تازہ کالم وہ ایک واقعہ سناتے ہوئے لکھتے ہیں کہ وہ ایک کتابوں کی دکان کے منیجر احمد سے اکثر ملاقات کرتے رہتے ہیں، جب کتابیں لینے دکان پر جاتے ہیں احمد ان کے مزاج کے مطابق کتابوں کا ڈھیرلگادیتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ احمد اکثر یہ واقعات بار بار سنا کر تلخ ہو جاتا ہے اور کہتا ہے کہ بندہ کدھر جائے۔ میں نے پوچھا کیا وجہ ہے کہ آج کل نئی کتب کم نظر آرہی ہیں۔ انہوں نے اس پر ایک اور کہانی سنائی۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ لندن اور فرینکفرٹ گئے جہاں کتابوں کے میلے ہوتے ہیں اور وہ وہاں سے خریداری کرکے کتابیں لاتے ہیں۔ اب کی دفعہ بھی انہوں نے چالیس ہزار ڈالرز کی کتابیں خریدیں اور جب پاکستانی بینکوں سے ایل سی کھلوانے کا موقع آیا تو یہاں کوئی تیار ہی نہیں تھا۔ اب تو کوئی غیرملکی پبلشر ہمارے ساتھ کاروبار کرنے پر آمادہ ہی نہیں ہے۔ ان کا ہم پر سے اعتبار ہی اٹھ گیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ چند ہزار ڈالرز کا آرڈر ہوتا ہے‘ اس پر بھی انہیں ایسے سنگین مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اسحاق ڈار کے دور میں ان پبلشرز کا بڑا نقصان ہوا کہ ان کے آرڈرز پورٹ پر پڑے رہے اور کلیئرنس نہ ہو سکی۔ وہ بتانے لگے کہ اب ان کی چالیس ہزار ڈالرز مالیت کی کتابیں پھنس کر رہ گئی ہیں۔ مجھ سے پوچھنے لگے کہ اب آپ بتائیں اس ملک میں بندہ کیا کاروبار کرے۔ کس کے پاس جائے اور اپنا مسئلہ بتائے اورحل کرائے۔ روف کلاسرا لکھتے ہیں کہ ۔۔خیر میں نے ان کی کتابوں کے مسئلے پر ٹویٹ کیا اور وزیراعظم انوارالحق کاکڑ سے درخواست کی کہ وہ سٹیٹ بینک کو یہ ہدایت دیں کہ وہ کتابوں کے آرڈرز کی ایل سی کو کلیئر کرے۔ خیر انوارالحق کاکڑ صاحب کا شکریہ کہ انہوں نے نہ صرف وہ ٹویٹ پڑھا بلکہ اس کا ٹویٹر پر ہی جواب دیا اور یقین دہانی کرائی کہ وہ اس مسئلے کو خود حل کرائیں گے۔ کاکڑ صاحب کے نام ٹویٹ کرنے کی وجہ بھی یہی تھی کہ وہ خود کتابیں پڑھنے کے شوقین ہیں۔ برسوں قبل میری ان سے پہلی ملاقات بھی ایک کتابوں کی دکان پر ہوئی تھی۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں