تحریر: توقیر چغتائی
انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا نے بھی کتاب بینی اورکتاب فروشی کو نقصان پہنچایا مگر اسے وقتی اور مختصر دورانیہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا اس لیے کہ ترقی یافتہ ممالک میں سوشل میڈیا پرکتابوں اور اخبارات کی سہولت کے باوجود کتاب بینی پرکوئی خاص اثر نہیں پڑا ۔ یورپ کے مختلف ممالک میں اب بھی دوران سفر یا فرصت کے لمحات میں کتاب بینی کو دوسرے مشاغل سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے، جس کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ تمام بڑے اخبارات انٹرنیٹ پر آسانی سے اور بلا معاوضہ دستیاب ہونے کے باوجود وہاںاخبار خرید کر پڑھنا زیادہ مناسب سمجھا جاتا ہے۔
ہمارے ملک میں انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے مگر ان میں ایسے افراد کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے جو اس سہولت کو حصول علم یا کتاب بینی کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اس کے باوجود تحقیق وتنقید کے شعبے سے تعلق رکھنے والے طالب علم ایسی کتابوں کی تلاش میں رہتے ہیں جن کے پرانے ایڈیشن پی ڈی ایف کی شکل میں آسانی سے مل جاتے ہیں لیکن کتاب کی مدد سے مختلف حوالے دینے اور متعلقہ تحریروں کی نشان دہی میں زیادہ آسانی ہوتی ہے ۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجہ سے بھی ایسے افرادکی گنتی کم ہوتی جا رہی ہے جو کتاب کو اس کی اصل شکل میں پڑھنے کے بعد لائیبریری میں سجا کر رکھنے کے عادی تھے۔
لاہور اور کراچی کے اردو بازار مختلف علمی و ادبی اور مذہبی و تدریسی کتابوں کے مراکز سمجھے جاتے ہیں جہاں مقامی خریداروں کے علاوہ مضافاتی شہروں سے آنے والے افراد کا جمگھٹا لگا رہتا ہے ۔ ان بازاروں میں کتابوں کی خرید وفروخت سے جڑے کئی پرانے اور نئے نام لاکھوں کا کاروبار کرتے ہیں لیکن ان کے مقابلے میں ایسے اشاعتی ادارے خریداروں کو اپنی جانب متوجہ کرنے میں ناکام دکھائی دینے لگے ہیں جو ترقی پسند ی، سائنسی، نفسیاتی، سیاسی و سماجی اور فلسفیانہ موضوعات پر مبنی کتابیں چھاپنے کے لیے مشہور ہیں۔
کتابوں کی قیمت اورکچھ دیگر مسائل پر ان اداروں سے اختلاف توکیا جا سکتا ہے مگر اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ یہ ادارے نہ ہوتے تو انگریزی زبان سے ناواقف قارئین ان غیر ملکی مصنفین کی کتابوںسے محروم رہتے، جنھوں نے اپنی تحریروں سے انسانی زندگی میں انقلاب برپا کیا اور ایسے مقامی مصنفین کی تحریریں بھی ان تک نہ پہنچ پاتیں جو آمریت کے ادوار میں پابندی کا شکار رہے۔ کراچی اور لاہور میں سویرا، سانجھ، سنگ میل، نگارشات، تخلیقات،دانیال، بک ہوم اور فکشن ہاؤس کے علاوہ کئی ایسے اشاعتی اداروں کا نام لیا جاسکتا ہے جوکتابوں کے مرکزی بازاروں سے دور بیٹھ کر قارئین کے لیے اعلیٰ پائے کی کتابیں چھاپتے رہے، لیکن ان اداروں میں جانے کے بعد یہ احساس ہوتا ہے کہ اب نئی کتاب چھاپنا اور فروخت کرناکتنا مشکل ہے ۔
ماضی کی طرح سیاسی اور سماجی پروگراموں کے انعقاد کے دوران کتابوں کے ایسے اسٹال لگانے کی روایت بھی دم توڑتی جا رہی ہے جن میں ہزاروں کتابیں فروخت ہوتی تھیں یا ملک کے چیدہ چیدہ مصنفین اور شعراء کی کتابوں کی پذیرائی ہوتی تھی۔ ایسے پروگراموں کے انعقاد میں بھی کمی آئی ہے اوردہشتگردی کے ہاتھوں زخم خوردہ شہری ان میں شریک ہونے کی روایت سے بھی دور جا چکے ہیں لیکن ملک کی بگڑتی ہوئی معاشی صورتحال کتابوں کی خرید و فروخت پر سب سے زیادہ اثر انداز ہوئی ہے جس نے اشاعتی اداروں کے ساتھ قارئین کو بھی مایوسی اور بے یقینی سے دوچارکیا ہے۔(بشکریہ ایکسپریس)۔۔