kissa akhbar jaha ki idarata ka

قصہ اخبار جہاں کی ادارت کا؟

تحریر: آغاخالد

ملک کے سب سے بڑے صحافتی ادارے “جنگ گروپ” کے چیف ایڈیٹر میر جاوید الرحمان کی  برسی ہے اور اس حوالے سے اخبار جہاں کے سابق ایڈیٹر اور میر جاوید مرحوم کے دست راست خالد فرشوری نے ان کی یاد میں ایک مختصر مگر جامع مضمون تحریر کیاہے خالد فرشوری انتہائی ذہین اور اعلی معیار کے صحافی ہیں وہ برسوں میر جاوید کے انتہائی قابل اعتماد اور قریبی ساتھی رہے ہیں ان کی فطانت طبع کو دیکھ کر ایک موقع پر مرحوم ادریس بختیار نے کہا تھا اگر یہ شخص صحافت میں نہ آتا تو بڑا سائنسداں ہوتا فرشوری کا اپنے مالک میر جاوید سے رشتہ عظیم مغل کردار “انار کلی” کے مصداق تھا بیٹا پیار میں دیوانہ تو باپ زندگی چھیننے کے درپئے، مگر یہاں تھوڑی سی تبدیلی یہ ہوئی کہ شہنشاہ اور شہزادے کا مزاج اکیلے میر جاوید میں آبسا تھا مرحوم کسی پر میہرباں ہوتے تو شہزادہ سلیم بنادیتے اور کوئی بات ناگوار گزرے تو دیوار میں چن وا دیتے وہ بادشاہی مزاج کے ساتھ ساری زندگی جیئے ان کے ایک بچپن کے دوست عبد الطیف  بتایا کرتے ہیں کہ مرحوم این جے وی ہائی اسکول میں ان کے ہم جماعت تھے اور اس سستے زمانہ میں  فوکس ویگن میں اسکول آیا کرتے تھے انہیں فلم دیکھنے کا بہت شوق تھا مگر اکثر سستی ٹکٹ خرید کر سب سے آگے بیٹھتے جبکہ اس وقت بھی میر خلیل الرحمان کا ملک بھر میں طوطی بولتا تھا اور میر صاحب کی فیملی کراچی کے معززین میں شمار ہوتی تھی جبکہ میر جاوید کے کلاس فیلو کے بقول ہم متوسط طبقہ سے ہونے کے باوجود معززین کی کلاس، باکس یا گیلری میں بیٹھ کر فلم دیکھتے، ان کا کہنا تھا کہ جب وہ میر صاحب کو ٹوکتے تو وہ درشت لہجہ میں ہمیں ڈانٹتے ہوے کہتے میاں سینما کے پردے پر چلنے والی فلم مہنگے ٹکٹ میں انہونی نظر آتی ہے کیا؟ پیسے کا ضیاع کرکے فلم کا مزہ خراب کرتے ہو، بہر صورت انہوں نے اپنے ہی ادارہ میں جس طرح اخبار جہاں تک محدود کیے جانے کے باوجود اس “ہفتہ روزہ” کو سنبھالا اور اسے ملک کا سب سے زیادہ فروخت ہونے والا رسالہ اور پاکستانی معاشرہ میں “اسٹیٹس سنبل” بنایا وہ ان کی قابلیت کا منہ بولتا ثبوت تھا جبکہ “اخبار جہاں” ملک کے اس دور کے تمام رسائل سے مہنگا رسالہ تھا مگر اس کے باوجود اس میں چھپنے والے مواد کی ترتیب اور انتخاب ایسا کمال تھا کہ متوسط طبقہ ہو یا پوش گھرانہ “اخبار جہاں” کے بغیر ڈرائنگ روم نامکمل سمجھا جاتا تھا میر جاوید اپنے متنوع مزاج کی وجہ سے اپنے ہی ادارہ میں خاصے متنازعہ بھی رہے اس کی تفصیل تو میری جلد آنے والی کتاب میں ملے گی فلحال یہاں موضوع ہے میر جاوید الرحمان کے ہم نوالہ خالد فرشوری کی بد قسمتی کا جو ایک کلچرل رپورٹر سے ترقی کرتے اپنے عہد کے سب سے زیادہ فروخت ہونے والے مہنگے اور شاندار ہفتہ روزہ کے سب سے بڑے (ایڈیٹر) کے طاقت ور اور باوقار منصب پر فائز ہوے یقینا اس میں ان کی خداداد صلاحیتوں کا ہی دخل تھا ورنہ میر صاحب کا اس قدر اعتماد انہیں کیوں کر حاصل ہوتا، وہ اخبار جہاں کی تاریخ کے منفرد ایڈیٹر تھے جو رات کو ملازمت سے فراغت پاتے اور صبح واپس آجاتے، در حقیقت ان کا تعلق مالک و ملازم سے زیادہ بے اعتنا محبوب کا تھا اس کی بڑی وجہ دونوں کی ہم آہنگی اور مزاج کا ملاپ بھی تھا خالد فرشوری بلا کے ذہین، جملہ باز، لطیفہ گو اور شاندار لکھاری ہیں اور یہی ہنر ان کے مالک کی کمزوری بن گیا تھا۔ اس لیے فرشوری سے زیادہ بے التفاتی “مزاج میر” کے بس میں نہ تھی اور یوں جب بھی میر صاحب یکطرفہ ناراضی ختم کرکے ایک ایس ایم ایس کرتے “واپس آجائو تمھاری سیٹ خالی ہے” اور دوسرے دن سیٹ کا اصل حقدار اس پر براجمان ہوتا ایڈیٹر اور مالک میں محبوبیت کا یہ کھیل جاری تھا کہ ایک روز میر جاوید الرحمان ناراض ہوے اور اکائونٹنٹ سے کہا ان کا حساب کردو اور گھر چلے گئے دوسرے روز آفس آنے کی بجائے فیصلہ ایزدی کے تحت اسپتال پہنچ گئے جہاں سے پھر ہمیشہ کی طرح فرشوری کو میسج ملا کہ واپس آجائو وہ جوائن کرنے دفتر پہنچے تو عملہ نے روک دیا اور عذر پیش کیا کہ ہمیں نئی ہدایات موصول نہیں ہوئی ہیں لہذا صبر کریں ان کا استدلال بھی درست تھا جیسا کہ پہلے عرض کرچکا ہوں کہ میر جاوید الرحمان کا غصہ بادشاہوں والا تھا جو امیر کو فقیر اور فقیر کو بادشاہ بنادیتا تھا سب ان کے موڈ پر منحصر ہوتا تھا پھر ہوا کچھ یوں کہ فرشوری انتظار کی گھڑیاں گنتے رہے ادھر میر جاوید الرحمان اسپتال سے ہی اپنے خالق حقیقی سے جاملے فرشوری آج بھی ان کا آخری ایس ایم ایس لیے اپنے منصب کی واپسی کے منتظر ہیں اور افسوس کا مقام یہ ہے کہ محترم میر شکیل الرحمان اور ان کے فرزند ارجمند میر ابراہیم کو سارے قصہ کاعلم ہے مگر مرحوم کے آخری فیصلہ اور خواہش کی تعمیل پر پہل کو کوئی تیار نہیں، کہتے ہیں موت کا مزہ چکھنے والوں کی روحیں بعد کے رویوں کو محسوس کر کے خوش یا اداس ہوتی ہیں، مرحوم کی روح بھی یقینا تڑپتی ہوگی ان کی حکم عدولی پر۔ واللہ اعلم باالصواب۔۔(آغا خالد)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں