سپریم کورٹ میں ایف آئی اے کی جانب سے صحافیوں کو ہراساں کرنے کیخلاف کیس میں چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ کہا ہم کسی ایف آئی آر کو درج ہونے سے روک سکتے ہیں؟پاکستان میں میڈیا اور صحافیوں کیساتھ کیا ہوا اس پر تو کتابیں لکھی جا سکتی ہیں،یہاں جو باتیں کی جاتی ہیں بیرون ملک کوئی کرے تو ہتک عزت پر معاشی طور پر ختم ہو جائے،یہاں تو الٹا لوگ ویوز لیکر اس سے کماتے ہیں۔نجی ٹی وی چینل دنیا نیوز کے مطابق سپریم کورٹ میں ایف آئی اے کی جانب سے صحافیوں کو ہراساں کرنے کیخلاف کیس کی سماعت ہوئی،چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں بنچ نے سماعت کی،چیف جسٹس پاکستان نے وکیل حیدر وحید سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی درخواست بھی میڈیا کی آزادی سے متعلق ہے یا کوئی اور ایجنڈا ہے؟آپ کی درخواست میں مختلف درخواست گزار ہیں،آپ کو مفت مشورہ ہے پہلے اپنے کلائنٹ سے ملاقات کرلیا کریں،اس عدالت کو استعمال نہیں کرنے دیں گے،آپ میڈیا ریگولیشن کی بات کررہے ہیں ،یہ مشکوک سا معاملہ ہے،بیرسٹر صلاح الدین آپ کی درخواست کیا ہے؟بیرسٹر صلاح الدین نے کہاکہ پریس ایسوسی ایشن سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ ایسوسی ایشن کی درخواست ہے،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ الزام کیا تھا اور نوعیت کیا تھی،ان پر مقدمہ کب ہوا، حکومت کس کی تھی؟اٹارنی جنرل نے کہاکہ بانی پی ٹی آئی کی حکومت تھی،چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ لوگ آج کی بات کرنا چاہتے ہیں کل کو بھول جاتے ہیں،کوئی سنجیدہ جرم تھا یا پھر تنگ کرنے کیلئے ایف آئی آر کاٹی گئی،بیرسٹر صلاح الدین نے کہاکہ ایف آئی اے انکوائری درج کرنے کے بعد گرفتاری کا اختیار رکھتی ہے،اس اختیار کو میڈیا اور صحافیوں کی آواز دبانےکیلئے استعمال کیا جاتا ہے،چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ کہا ہم کسی ایف آئی آر کو درج ہونے سے روک سکتے ہیں؟پاکستان میں میڈیا اور صحافیوں کیساتھ کیا ہوا اس پر تو کتابیں لکھی جا سکتی ہیں،یہاں جو باتیں کی جاتی ہیں بیرون ملک کوئی کرے تو ہتک عزت پر معاشی طور پر ختم ہو جائے،یہاں تو الٹا لوگ ویوز لیکر اس سے کماتے ہیں،عدالت نے کیس کی سماعت 27مارچ تک ملتوی کردی۔