تحریر: انورحسین سمرا، تحقیقاتی صحافی۔۔
دوہزار پانچ میں پاکستان میں ایک شدید زلزلہ آیا تھا جس میں لاکھوں لوگ لقمہ اجل بن گئے اور ہزاروں بلڈنگزو گھر صفحہ ہستی سے مٹ گئے اور ہزاروں افراد مستقبل اپاہج ہو گئے تھے. ہماری حکومت نے ملکی و بین الاقوامی اداروں اور ملکوں سے امداد کی اپیل کی جس پر ہزاروں ٹن راشن، کمبل، خیمے اور ادویات مختلف دوست ممالک اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے دل کھول کر بھجوائیں اور وزیر اعظم ریلیف فنڈ میں کروڑوں ڈالرز عطیہ کیے. حکومت پاکستان نے اس وقت این ڈی این اے بنایا اور اس کو مستقبل میں ایسی قدرتی آفات سے نبرد آزما ہونے کا ٹاسک دیا.۔
میں اس وقت انگریزی کے ایک نئے شروع ہونے والے موقر اخبار میں کام کرتا تھا جس کا اردو میں ایک مشہور عوامی امنگوں کا اخبار تھا (جہاں ظلم وہاں….. ) اور سندھی و پنجاب میں بھی روزنامہ چھایا ہوتا تھا بعد میں ٹی وی چینل بھی آیا . اس زلزلے کے بعد مختلف انسانی ہمدردی کی سٹوریز چھایا کرنے پر ہمارے انگریزی اخبار نے کافی پزیرائی حاصل کی تھی. ادارے کی انتظامیہ نے انگریزی اخبار کی پہلی سالگرہ اسلام آباد کے ایک اعلی نجی ہوٹل میں رکھی اور راقم ادارے کی اعلی انتظامیہ و مالکان کے ہمراہ اس تقریب میں شرکت کے لئے اسلام آباد گیا. تقریب کے بعد رات گزارنے کا انتظام ایک خوبصورت گھر میں تھا. جب میں اور دو دیگر افراد وہاں پہنچے تو یہ دیکھ کر حیرانی ہوئی کہ جو بستر لگائے گئے تھے وہ انتہائی آرام دے اور نئے تھے لیکن ان پر لکھا تھا امداد برائے زلزلہ زدگان فرام یونائیڈ نیشن (اقوام متحدہ ). یہ دیکھ کر میرے ضمیر کے طوطے اڑ گئے اور شرمندگی سے بدن شرابور ہوگیا. میں نے ادارے کے ایڈمن افسر کو بلایا کہ یہ کیا ہے آپ کے پاس کیسے آئے، کون دیے کر گیا اور کن کے لئے آئے تھے اور آپ نے کیوں رکھے یہ تو زلزلہ زدگان کے لئے امداد آئی تھی. اس ایڈمن افسر کا جواب بڑا سادہ تھا کہ سر ہمارا ادارہ بھی باہر اور ملک سے اکٹھی ہونے والی امداد زلزلہ زدگان میں تقسیم کرنے کے فرائض انجام دیتا رہا تھا اور یہ چند نہیں بلکہ کافی تعداد میں اچھے بستر اور ٹینٹ آئے تھے جو ہمارے اعلی افسران کو پسند آئے اور ہم نے اپنے سٹور میں رکھ لیے اور آج کام آرہے ہیں. اس کا کہنا تھا کہ سر یہ ہم نے یہ کام اکیلے نہیں کیا بلکہ سرکاری اداروں کے لوگوں نے بھی اچھی کوالٹی کا کافی سامان اپنے گھروں میں لے گئے تھے اور ماڑا سامان تقسیمِ کرکے فوٹو سیشن اور فوٹیج بنا کر میڈیا پر چلوا دی گئی اور بلے بلے کروا لی گئی. یقین کریں مجھے ساری رات اس بستر پر نیند نہ آئی بلکہ شرمندگی سے آپنے آپ اور قومی وقار کو کوستا رہا کہ ہم قدرتی سانحات میں جب عوام مر رہی ہوتی ہے ان کے لئے دی گئی امداد سے بے ایمانی اور بےغیرتی کرنے سے باز نہیں آتے. ہمارا کردار اس گدھ جیسا ہو جاتا ہے جو بیمار جانور کے پاس بیٹھ کر مرنے کا انتظار کرتی ہے کہ جیسے یہ آنکھیں بند کرے وہ اس کا گوشت و ہڈیاں نوچ لے. این ڈی این اے اور پی ڈی ایم اے میں تعینات لوگ بھی ان قدرتی آفات میں دہاڑی لگانے کے چکر میں غیر معیاری اور کم تعداد میں ریلیف آٹیم خریدتے ہیں اور بلز زیادہ تعداد اور اعلی کوالٹی کے حکومت کے خزانے سے لئے جاتے ہیں، ہر طرف کمیشن کی پکار ہوتی ہے اور ریلیف آئیٹم میں بڑے پیمانے پر غبن سیاسی قیادت اور بیوروکریٹس کی آشیر باد سے کیا جاتا ہے. اب سیلاب کے ریلیف میں کئی افسران کی غربت دور ہوگی اور متاثرین سالوں امداد کے لیے دربدر کی ٹھوکریں کھائیں گے اور پٹواریوں سے مزید نقصان کے تخمینہ کی مد میں لٹیں گے. کوررنا میں کئی افسران اور کاروباری افراد نے کمیشن اور منافع خوری کی حد کردی اور خوب غربت نکالی اور حکومت بے حسی و بے شرمی کی تصویر بنی رہی. یہ ہمارا قومی کردار ہے اس پراللہ کا قہر نہ آئے تو کیا آئے. اللہ تعالیٰ ہمیں معاف فرمائے اور صراط مستقیم پر چلنے اور انسانی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین.. دیکھنا یہ ہے کہ اب سیلاب زدگان کے لیے آنے والی غیر ملکی امداد کے ساتھ کیا غیر انسانی سلوک ہوتا ہے۔۔(انورحسین سمراء، تحقیقاتی صحافی)۔۔