سینئر صحافی، اینکرپرسن اور کالم نویس رؤف کلاسرا نے کہا ہے کہ کسان چونکہ میڈیا کو اشتہار نہیں دے پاتا لہذا ان کے مسائل پر توجہ کم دی جاتی ہے۔۔دنیانیوز میں اپنے تازہ کالم میں وہ لکھتے ہیں کہ ۔۔کسان ہر دفعہ لٹ جاتے ہیں۔ اس وقت تو وہ گندم کے بحران کا سامنا کررہے ہیں ورنہ پورا سال وہ کسی نہ کسی بحران کا سامنا کرتے رہتے ہیں۔ اب ہمارے کسان فرانس کے کسان تو ہیں نہیں کہ سب کچھ جام کر دیں اور حکومت کو مجبور کر دیں کہ ان کی باتیں مانی جائیں۔وہ مزید لکھتے ہیں کہ کسانوں سے پیسہ لے کر کھاد فیکٹریوں کے مالکان کو اربوں معاف کر دیے گئے۔ وہی کسان جنہوں نے بلیک میں کھاد خریدی تھی۔ وہ کسان جنہیں گیس پائپ لائن کے نام پر بھی لوٹا گیا اور ان سے اکٹھا کیا گیا ٹیکس بڑے بڑے شہری بزنس مین کھا گئے۔ اب وہ کسان پھر رُل رہے ہیں کہ ان کی گندم کا ریٹ کوئی نہیں دے رہا۔ سرکاری ریٹ 3900 روپے تھا تو اب ڈھائی سے تین ہزار روپے کے درمیان مڈل مین دے رہا ہے۔ پاسکو اور صوبائی فوڈ ڈیپارٹمنٹ چپ چاپ بیٹھے ہوئے ہیں۔ پاسکو اِن کسانوں کو بار دانہ نہیں دے رہا۔ اب بچ بچا کر کسانوں کے پاس ایک ہی حل ہے کہ وہ کم قیمت پر اپنی گندم بیچیں اور نقصان اٹھائیں۔ سارا سال کسانوں نے کھاد فیکٹریوں کی مقرر کردہ قیمت پر کھاد خریدی، حکومت کے سرکاری ریٹ پر تیل خریدا، بیج خریدا‘سرکاری ریٹ سے بجلی کے نرخ ادا کیے‘ لیکن اب جب ان کی فصل کی باری آئی ہے تو اس وقت سرکار اپنے ریٹ پر بھی گندم نہیں خرید رہی۔ سب کچھ شہری بابو فکس کرتے ہیں۔ جب ملک میں گندم کی قلت ہو جائے تو ڈپٹی کمشنرز پولیس ساتھ لے کر کسانوں کے گھروں پر چھاپے مار کر گرفتار کر لیتے ہیں کہ تم نے گھر میں گندم سٹور کیوں کی ہے‘ تم ذخیرہ اندوزی کا جرم کررہے ہو۔ وہی ڈپٹی کمشنر دفعہ 144لگا دے گا کہ گندم ضلع سے باہر نہیں جا سکے گی۔ یوں پولیس اور قانون کا سہارا لے کر ضلعی انتظامیہ ساری گندم زبردستی گھروں سے اٹھا کر کسانوں کو جیل میں ڈال دیتی ہے کیونکہ انہوں نے اپنا ٹارگٹ پورا کرنا ہوتا ہے۔ ٹارگٹ کے نام پر ساری ماردھاڑ کی جاتی ہے۔ رؤف کلاسرا کاکہنا ہے کہ پچھلے سال تک تو افغانستان کے تاجروں نے کسانوں کی کھڑی فصلوں تک کے سودے کر لیے تھے اور انہیں سرکاری ریٹ سے زیادہ ریٹ آفر کیا جارہا تھا۔ اس وقت یہ خطرہ تھا کہ ساری گندم افغانستان پہنچ جائے گی اور پاکستان میں گندم کی کمی ہوجائے گی اور ہمیں ڈالرز مانگ کر باہر سے منگوانی پڑے گی۔ اور یہی ہوا۔ پچھلے سال گندم کم ہونے کی وجہ سے باقاعدہ مہم چلائی گئی کہ گندم زیادہ کاشت کی جائے۔ اب جب گندم زیادہ کاشت ہوگئی ہے تو حکومت نے اپنے ہاتھ کھڑے کر دیے ہیں کہ ہم نہیں خرید سکتے۔ تو اب کسان اس گندم کو کہاں لے کر جائے؟ اس کا فائدہ اب مڈل مین کو ہورہا ہے کیونکہ کسان اپنی فصل کو کھیت میں کھڑا رکھ سکتا ہے اور نہ ہی کاٹ کر سٹور کرسکتا ہے کہ جب اچھا ریٹ ملے تو نکال کر بیچ دے ۔ کسان کی ساری امیدیں گندم کی فصل سے ہوتی ہیں۔ یہ اس کی سب سے بڑی کیش کراپ سمجھی جاتی ہے۔