social media or tareekh nigaari

کس نام سے پکاروں؟

تحریر: محمد راشد ندیم

جدید دور کے ساتھ ہر معاملے میں لوگوں کے رجحانات اور خیالات بدلتے جار ہے ہیں، آج کل کے والدین بچوں کے ماڈرن نظر آنے والے نام   رکھنے لگے ہیں جیسا کہ آیان،فارش، ارش، زمیل، میرب، سماہل وغیرہ۔یہ نام اپنے معنی کے اعتبار سے نہایت اچھے اور پکارنے میں بھی نہایت آسان ہیں مگر اس قدر خوبصورت اور آسان نام رکھنے کے باوجود بھی بچوں کواصلی ناموں کی بجائے”نک نیم“ سے پکارا جاتا ہے جیسے کہ ہنی، بنٹی، ببلو،پپو، گومی، پوپی وغیرہ۔ بات نک نیم پر ہی ختم نہیں ہوتی بلکہ اکثر بچوں کوایسے ایسے ناموں سے پکاراجاتا ہے کہ سب کا تذکرہ شروع کریں تو ایک کتاب مکمل ہوجائے۔ ان میں سے چند ایک دلچسپ القابات مندرجہ ذیل ہیں:

اگر کوئی بچہ باہر کھیلنے نکل جاتا ہے تو آوارہ، گھر میں بیٹھا رہے تو، ویلا، سست۔ گھر کے کسی کام میں ہاتھ نہ بٹائے تو نکھٹو اور نکما۔ تیز طرار ہے تو خچرا، شوخااوراگر بھولا بھالا ہے تو بدھو اور بونگا جیسے خطابات کا حقدار ٹھہرتا ہے۔بچہ جب سکول جاتا ہے تو وہاں تو خاص کر کلاس فیلو اوراکثر ٹیچر بھی ازراہ مذاق بچوں کو الٹے ناموں سے پکارتے ہیں،اگر کوئی طالب علم پڑھائی میں کمزور ہے تونالائق، گدھا،احمق جیسے خطابات سے پکار اجاتا ہے، پھر وہ نام زبان زد عام ہو کر ہمیشہ کے لیے بچے کی شخصیت پر چسپاں ہوجاتا ہے،وہ ساری عمر خود کو گدھا ہی سمجھتارہتا ہے اوراس میں خود اعتمادی پیدانہیں ہوتی۔

اگر کسی بچے نے سر منڈوا لیا تو ہر جگہ اسے گنجا،روڈا، طبلہ اور کولہ جیسے القاب مل جاتے ہیں۔اگر کسی کی نظر کمزور ہے یا نظر کا چشمہ لگ گیا تو اَنّا، دوربین، بیٹری جیسے نامعقول ناموں سے پکارا جاتا ہے۔ اگر کوئی بولنے میں اٹکتا ہے تو بریک فیل، اٹکا گئیر، دھکا سٹار ٹ جیسے نام رکھ دیئے جاتے ہیں۔غرض جیسی کمزوری ویسا نام جن کا احاطہ کرنا اس تحریر میں ممکن نہیں ہے۔ اسی طرح بچہ اپنے دوستوں سے ملتا جلتا ہے تو دوستوں نے بڑھاوا دینے یاچڑانے کو عجیب نام رکھے ہوتے ہیں، اگر تو بندہ دوستوں پر خرچ کرنے والا ہے توجگر، جانی، باس، ہیرو اور اگردوسروں کا خرچ کرانے والا ہے تو سر درد،کنجوس، تنگدل، مفتا وغیرہ جیسے القاب کا مستحق ٹھہرتا ہے۔اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی بچے سے اس کا نام پوچھیں تو بتاتا ہے کہ نام عمران ہے، گھروالے مانا کہتے ہیں، دوست مانی کہتے ہیں، ٹیچر عمی کہتی ہے، اب جو چاہے کہہ کر بلالیں،اتنے سارے نام سن کر اگلابندہ سوچ میں پڑ جاتا ہے کہ ”کس نام سے پکاروں“؟

آج کل ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا کا دور ہے، چاہے کوئی کتنا ہی ان پڑھ کیوں نہ ہو اس کے ہاتھ میں بھی انڈرائیڈ موبائل ہوتا ہے اور سوشل میڈیا پر ایک سے زائد اکاؤنٹ۔بچپن سے لڑکپن تک الٹے ناموں سے پکارے جانے والے بہت سے لڑکے لڑکیاں جب سوشل میڈیا پر اکاؤنٹ بناتے ہیں تو ماضی کے القابات کو پیش نظر رکھتے ہوئے اوراپنے احساس محرومی کو دور کرنے کے لیے اصلی یا فرضی ناموں کے ساتھ پرنس، ڈان، کوئین، بے بی ڈول، اینجل، روز،کنگ جیسے ناموں کا اضافہ کرلیتے ہیں۔کچھ لوگ خود کواونچی چیز ثابت کرنے کے لیے گرو، موسٹ وانٹڈ، 302اور420 جیسے نام بھی استعمال کرتے ہیں۔اگر کہا جائے بچے کی شخصیت پر اس کے نام کابہت اثر پڑتا ہے تو جواب ملتا ہے بھلا نام کا شخصیت پر کیا اثر؟یہ سب پرانی باتیں ہیں، آج کل تونک نیم سے بلانا فیشن ہے وغیرہ۔ان سب خرافات کایا کسی کا الٹانام لینے کا اس کی شخصیت پر کیسا اثر پڑتا ہے، اس کی شخصیت میں کیا کمی یا اضافہ ہوتا ہے،سوشل میڈیا پر ایسے نام رکھنے سے زندگی پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں آپ بھی ملاحظہ کریں:

ایک بار مجھے کسی صاحب کے گھر جانے کا اتفاق ہواجن کی رنگت سیاہی مائل تھی،دستک دی تودرواز ے پر ایک عورت نمودار ہوئی، میں نے کہا ذوالفقار کو بلادیں، کہنے لگی یہاں تو کوئی ذوالفقار نہیں رہتا،میں واپس مڑا تو موصوف سامنے سے چلے آرہے تھے، میں نے ان سے گھر کا پوچھا تو کہنے لگے یہی گھر ہے، میں نے کہا آپ کے گھر والے تو آپ کے وجود سے انکاری ہیں کہ یہاں کوئی ذوالفقار نہیں رہتا تو شرمندہ سے ہوکرکہنے لگے بات دراصل یہ ہے کہ گھر والے بچپن سے مجھے ”کالا“کہہ کر پکارتے ہیں اس لیے میرا اصل نام ان کے ذہن سے تقریباً محو ہوچکا ہے۔

ہمارے محلے میں ایک شخص رہتا ہے، عمر چالیس کے لگ بھگ ہوگی،فیملی کے سوا کوئی بھی اصل نام سے واقف نہیں بس بچپن سے ”منا“کہہ کر پکاراجاتا ہے،چھوٹے بڑے بہن بھائی سب بیاہے گئے مگر موصوف ابھی تک کنوارے ہیں کیونکہ ابھی خود کو منا سمجھتے ہیں اور زندگی بھر صرف اسی وجہ سے کہیں ٹک کر کام نہیں کیا کہ منے کے کھیلنے کے دن ہیں کام کے نہیں۔یوں اچھا خاصا صحت مند انسان اپنے نام کی مناسبت سے بچوں جیسی زندگی گزار رہا ہے۔

ہم جب پرائمری میں تھے تو چھٹی سے پہلے باری باری سب بچے کھڑے ہو کرکتاب سے سبق سنایا کرتے تھے۔ ہمارے ساتھ ایک لڑکا پڑھتا تھا جو تھوڑاہکلا کربولتا تھا،سبق کا عنوان تھا”گفتگو کے آداب“ مگر اس کی ماڑی قسمت جو اس نے کہہ دیا ”گُوگُو کے آداب“، بس اس دن سے استاد صاحب نے اس کا نام گُو گُورکھ دیا اورپھر وہ سچ میں ہی گُوگُوبن گیا اور پرائمری میں ہی سکول چھوڑ گیا۔ ایک ذہین طالب علم زبان کی معمولی سی لکنت کی وجہ سے پوری کلاس کے مذاق کا نشانہ بنتا رہا اور سکول سے دور ہوکرمستقبل برباد کر بیٹھا۔

ہمارے گاؤں میں ایک لڑکا تھا،اس کا رنگ توے جیسا سیاہ تھا، والدین نے اس کا نام منیر رکھا تھا،ہر ماں کے لیے اس کا بیٹا چا ند،ستارے کی مانند ہوتا ہے اورپھر منیر کا مطلب تو ہے ہی روشن کرنے والا، اس وجہ سے اس کے گھر والوں نے اسے ”چاند“ کہہ کر پکارناشروع کر دیا مگر لوگ اس کا مذاق اڑاتے کہ چاند کو پورا گرہن لگا ہوا ہے، وہ بڑاہو کر سن شعور کو پہنچا تو لوگوں کے مذاق سے تنگ آکر اس نے گھر سے نکلنا چھوڑ دیا،پڑھائی بھی چھوٹ گئی اور کوئی کام بھی نہ کر سکااورپھر ایک دن پورا گھرانہ گاؤں چھوڑ کر نجانے کہا ں چلا گیا۔

میرے ایک محترم دوست نے بتایا کہ ایک لڑکا تھا جس نے اپنی موٹر سائیکل کے پیچھے 302 لکھوالیاجس وجہ سے ہر کوئی اسے 302 کہہ کر پکارنے لگا،اب وہ اپنے آپ کو علاقے کا ڈان سمجھنے لگا اور ہر ایرے غیر ے سے الجھنا شروع کردیا، کچھ ہی دن گزرے تھے کہ اس کے ہاتھ سے کسی کا قتل ہوگیا، وہ موقع پر ہی گرفتار ہوگیا، عدالت نے دفعہ302 کے تحت پھانسی کی سزا دے دی۔

لاڈ پیار اور شوخی سے رکھنے والے ناموں کانتیجہ آپ نے دیکھ لیا۔ایسے ہی بے شمارکردار آپ لوگوں کے سامنے بھی موجود ہوں گے کہ جنہیں بچپن میں والدین ”ویلا، نکما، نکھٹواورآوارہ کہہ کر پکارتے تھے اور وہ بچے بڑے ہوکر والدین کا سہارا بننے کی بجائے ضدی اور خود سر ہوگئے اورالٹا والدین پر بوجھ بنے بیٹھے ہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ والدین اپنی اولاد کی سرگرمیوں پر نظر رکھیں، ان کے دوستوں کے حلقے اور سوشل پروفائلز کا جائزہ لیں کہ انہوں نے اس قسم کے نام کیوں رکھے ہوئے ہیں، ان کا رجحان کس جانب ہے، کہیں بچہ کسی ایسی سرگرمی میں ملوث تو نہیں ہو رہا جو ان کو تباہی کے راستے پر لے چلے، اس کے ساتھ ساتھ والدین کو چاہیے کہ بچوں کے ایسے نام رکھیں جن کے اچھے معنی ہوں، نہ صرف خود اپنے اور دوسروں کے بچوں کو سیدھے ناموں سے پکاریں بلکہ نوٹس لیں کہ کوئی ان کے بچے کو الٹے نام سے تو نہیں پکار رہا،اگر ایسا ہو تو اس کو منع کر دیں۔ والدین خود بچوں کے نام بگاڑتے ہیں مگر جب کوئی دوسرانام بگاڑے تو نوبت لڑائی جھگڑے تک پہنچ جاتی ہے لہٰذا اس بات کو ذہن میں رکھیں کہ بچوں کو شروع دن سے ہی اس کے اصلی نام سے پکاریں اوردوسروں کو بھی اس کی تلقین کریں کیونکہ نام واقعی ہی شخصیت پر اثر انداز ہوتے ہیں۔(محمد راشد ندیم)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں