تحریر: منصور اصغر راجہ۔۔
اے آر وائی والے محترم ارشد شریف صاحب نے ہمارے دیرینہ دوست عمران ریاض کی گرفتاری پر اپنا ردعمل فیض صاحب کے اس شعر کی صورت میں دیا ہے کہ ۔۔
جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا ،وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے ، اس جان کی تو کوئی بات نہیں
افسوس ! فیض کے کلام پر یہ وقت بھی آنا تھا۔۔۔۔کپتان کے دیوانوں کی اکثریت اس گرفتاری پر خاصی چیں بہ جبیں ہے ۔ خاص طور پر عمران ریاض کے فارم ہاوس ، بنگلے ، اسلحہ لائسنس ،محافظوں کی فوج ظفر موج پر اٹھنے والے سوالات کو یہ کہہ کر جواز بخشنے کی سعی جاری ہے کہ عمران ریاض ایک مقبول ترین اینکر ہیں اور وہ صرف اپنے یوٹیوب چینل ہی سے 75 ہزار ڈالر ماہانہ کماتے ہیں ۔۔۔۔۔
ہم اس پر بحث نہیں کریں گے کہ عمران ریاض کی گرفتاری کے محرکات کیا ہیں ، کہ اس وقت چوپال کا گرم ترین موضوع یہی ہے ۔۔۔۔ہم صرف یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ ہمیں اج تک سمجھ نہیں آئی کہ صحافیوں کی وہ کون سی قسم ہے جنہیں مقتدر قوتیں ڈراتی دھمکاتی ہیں۔ستم ظریفی تو یہ ہے کہ یار لوگ صحافی بعد میں بنتے ہیں ، دھمکی آمیز فون پہلے ہی آنے شروع ہو جاتے ہیں ۔۔۔لیکن ہمارا اپنا تجربہ تو کچھ مختلف ہے ۔۔۔ہمیں کوچہ صحافت میں پندرہ برس سے زائد ہو چلے ہیں ، ہم نے ایڈیٹنگ ، رپورٹنگ ، فیچر نگاری ، انٹرویو نگاری ، کالم نویسی کی اور الحمد للہ ڈنکے کی چوٹ پر کی ، اس پورے عرصے میں ایک بار کابل یونی ورسٹی سے ایک مقامی طالب علم اور کینیڈا سے ایک پاکستانی نے ہمیں ای میل بھیجی اور ایک بار جرمنی سے ایک پاکستانی نے فون کیا اور تینوں نے ہماری تحریروں کو سراہا ۔ اس کے علاوہ آج تک ہمیں کوئی دھمکی امیز فون آیا نہ سندیسہ ۔ہمیں یقین ہے کہ ہمارے سینئر صحافی دوستوں کی اکثریت کا احوال بھی کچھ ایسا ہی ہو گا۔۔۔۔
۔۔۔رہی بات فارم ہاوس والی ۔۔تو ہمیں ہمدم دیرینہ مرحوم مشاہد اللہ خان کی طرف سے ایک ٹاک شو میں حسن نثار پر اٹھایا گیا وہ سوال آج بھی یاد ہے کہ پاکستان میں تو صحافیوں کو چھ چھ مہینے تن خواہ نہیں ملتی ، لوگ بڑی مشکل سے اپنے گھر کا چولہا جلاتے ہیں ، ایسے میں آپ نے بیلی پور کا فارم ہاوس کیسے بنا لیا ؟۔۔اور جواب میں حسن نثار گالی گلوچ پر اتر آئے تھے ۔ ۔۔برادرم عمران ریاض کے بارے میں بھی ہمارا یہی سوال ہے ۔ تسلیم کہ ڈیجیٹل میڈیا پیسے کمانے کا ایک ذریعہ بن چکا ہے لیکن اتنا بھی اندھیر نہیں مچا ہوا کہ آپ یوٹیوب سے کمائی کرکے فارم ہاوس اور چار چار کنال کے بنگلے بنانے شروع کر دیں ۔۔ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ایسے صحافی صرف صحافت نہیں کرتے، ساتھ کوئی اور “دھندہ “بھی کرتے ہیں ،تبھی ان کے اثاثے راتوں رات کہیں سے کہیں پہنچ جاتے ہیں ۔۔ ہر صحافی اپنی کوئی نہ کوئی رائے رکھتا ہے اور کسی بھی ایشو پر تبصرہ و تجزیہ پیش کرتے ہوئے اسے اپنی رائے کے اظہار کی مکمل ازادی حاصل ہوتی ہے لیکن کسی سیاسی جماعت کا غیر رسمی ترجمان بن کر برسر مجلس مقتدر قوتوں کو للکارنا ، عمران ریاض ہی کے بقول ” رجیم چینج پر کھپ اور رولا ڈالنا ” اور اپنے اپ کو بے باک صحافی ظاہر کرنے کے لیے ہر گفتنی و نا گفتنی کہہ دینا ، یہ چلن تحریر و تقریر کے آداب کے بھی خلاف ہے اور اسے ہر گز لائق تحسین بھی قرار نہیں دیا جا سکتا۔۔(منصور اصغر راجہ)۔۔