تحریر : علی عمران جونیئر
دوستو، آپ کے اطراف اکثر ایسے کردار بھی پائے جاتے ہوں گے جنہیں دنیا کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی، اپنی مستی میں مست رہتے ہیں، جو دل چاہتا ہے کرتے ہیں،جس چیز کا دل چاہتا ہے کھاتے ہیں، ان کے پاس زندگی کے اصول و ضوابط کوئی معنی نہیں رکھتے۔ انہیں ہر وہ کام کرنے میں روحانی تسکین ملتی ہے جس کے لیے ان کا ’’من‘‘ کرتا ہے۔ ایسے ہی لوگوں کے لیے انگریزوں نے کیا خوب کہا ہے کہ Kill the Waves۔۔تو چلیے پھر آپ بھی موجیں ماریں اور چھٹی والا دن انجوائے کریں۔ تیسری دنیا کے سستے ترین سائنسدانوں نے ایک اوٹ پٹانگ تحقیق میں بتایا ہے کہ ۔۔ٹریڈ مِل کے موجد 54 سال کی عمر میں چل بسے۔ ۔۔جمناسٹکس کے موجد 57 سال کی عمر میں چل بسے۔ ۔۔ورلڈ باڈی بلڈنگ چیمپئن کا 41 سال کی عمر میں انتقال ہوگیا ۔۔دنیا کے بہترین فٹ بالر میراڈونا کا 60 سال کی عمر میں انتقال ہوگیا ۔۔۔کنگ آف مارشل آرٹ بروس لی 32 سال تک جئے ۔۔۔لیکن ،کے ایف سی کا موجد 94 سال کی عمر میں فوت ہوا تھا۔۔نوٹیلا برانڈ کا موجد 88 سال کی عمر میں فوت ہوا ۔۔سگریٹ بنانے والی کمپنی ونسٹن کا 102 سال کی عمر میں انتقال ہوا ۔۔۔افیون کا موجد 116 سال کی عمر میں ایک زلزلے میں فوت ہوا ۔۔عالمی شراب برانڈی برانڈ کے ہنسی 98 برس کی عمر میں فوت ہوگئے ۔۔ایم ڈی ایچ مسالے بنانے والے مالک 97 سال تک زندہ رہا۔۔۔پھر یہ ڈاکٹر کیسے اس نتیجے پر پہنچے کہ ورزش زندگی کو طول دیتی ہے؟۔۔ خرگوش ہمیشہ اچھلتا کودتا ہے لیکن وہ صرف 2 سال تک زندہ رہتا ہے اور کچھوا جو 400 سال تک زندہ رہتا ہے کبھی ورزش نہیں کرتا ہے ۔۔لہذا کھائیں پئیں اینڈ kill the waves یعنی موجیں ماریں۔ لکھنئو کے ایک نواب صاحب کو کسی نے گدھا کہہ دیا۔۔!!نواب صاحب کو یہ بہت ناگوار گزرا اور انہوں نے کورٹ میں کیس کر دیا۔۔!جج نے گدھا کہنے والے سے پوچھا تو اس نے اعتراف کرتے ہوئے اپنی غلطی مان لی۔۔اور اپنے کہے پر شرمندہ ہوکر معافی مانگ لی۔۔جج نے نواب صاحب سے کہا۔۔ نواب صاحب اب تو یہ معافی مانگ رہا ہے آپ کا کیا کہنا ہے۔۔؟؟ نواب صاحب مشرو ط معافی دینے پر مان گئے اور شرط بھی یہ رکھی کہ وہ اب کسی بھی نواب کو گدھا نہیں بولے گا۔۔!!جج نے مجرم کو بری کردیا۔۔!!جانے سے پہلے اس آدمی نے جج سے پوچھا۔۔ یور آنر، میں نواب صاحب کو تو قطعی گدھا نہیں بولوں گا لیکن ایک بات بتائیے کہ گدھے کو تو میں نواب صاحب بول سکتا ہوں کہ نہیں؟ ۔۔جج نے کہا ،گدھے کو آپ کچھ بھی بولیے، کورٹ کا اس سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔۔!!!وہ آدمی نواب صاحب کی طرف مُڑا اور بولا۔۔ اچھا تو’’نواب صاحب‘‘ مَیں چلتا ہوں۔۔پرانے زمانے کا سچا قصہ ہے کہ ۔۔ایک دن مُلا نصیر الدین اپنے گدھے کو گھر کی چھت پر لے گئے جب نیچے اتارنے لگے تو گدھا نیچے اتر ہی نہیں رہا تھا۔بہت کوشش کی مگر گدھا نیچے اترنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا ۔۔آخر کار ملا تھک کر خود نیچے آ گئے اور انتظار کرنے لگے کہ گدھا خود کسی طرح سے نیچے آجائے۔کچھ دیر گزرنے کے بعد ملا نے محسوس کیا کہ گدھا چھت کو لاتوں سے توڑنے کی کوشش کر رہا ہے۔۔ملا پریشان ہو گئے کہ چھت تو بہت نازک ہے، اتنی مضبوط نہیں کہ اس کی لاتوں کو سہہ سکے دوبارہ اوپر بھاگ کر گئے اور گدھے کو نیچے لانے کی کوشش کی لیکن گدھا اپنی ضد پر اٹکا ہوا تھا اور چھت کو توڑنے میں لگا ہوا تھا ملا آخری کوشش کرتے ہوئے اسے دوبارہ دھکا دے کر سیڑھیوں کی طرف لانے لگے کہ گدھے نے ملا کو لات ماری اور ملا نیچے گر گئے اور پھر چھت کو توڑنے لگا بالآخر چھت ٹوٹ گئی اور گدھا چھت سمیت زمین پر آ گرا۔۔ملا کافی دیر تک اس واقعہ پر غور کرتے رہے اور پھر خود سے کہا کہ۔۔ کبھی بھی گدھے کو مقام بالا پر نہیں لے جانا چاہئیے ایک تو وہ خود کا نقصان کرتا ہے دوسرا اس مقام کو بھی خراب کرتا ہے اور تیسرا اوپر لے جانے والے کو بھی نقصان پہنچاتا ہے۔۔نوٹ: گدھوں کے دونوں قصوں سے کسی بھی قسم کی مماثلت اتفاقیہ ہوگی۔۔ ریل کے سفر کے دوران ایک صاحب کی جب بھی سامنے بیٹھی خاتون سے نظر ملتی مسکرا دیتے، جب یہ چوتھی بار ہوا تو خاتون بھی مسکرائیں اور کہا کہ۔۔ جب بھی آپ مسکرا کر مجھے دیکھتے ہیں میرا دل کرتا ہے کہ آپ سے ملاقات ضرور کرنی ہے۔۔یہ سن کر صاحب کا بس نہیں چل رہا تھا کہ کیا کردیں، فوراً بولے۔۔جی ضرور جب آپ کہیں،کہاں ملنا ہے۔۔؟؟خاتون نے اپنا کارڈ دیا اور کہا۔۔میرے کلینک میں، میں ڈینٹسٹ ہوں۔۔ آپ کے دانت میلے کچیلے، ٹیڑھے میڑے اور کالے ہیں،سائیڈ کی دو داڑھوں میں کیڑا بھی لگا ہوا ہے،مجھے لگتا ہے شاید ایک ملاقات کافی نہ ہو، لیکن یہ گارنٹی ہے کہ مجھ سے ملاقات کے بعد آپ مسکراتے ہوئے کم از کم اتنے برے نہیں لگیں گے۔۔باباجی نے جب یہ قصہ سناتو مسکرا کوبرجستہ بولے۔ ۔مہذب خاتون تھیں اسی لیئے صرف دانت کے کیڑے کا بتایا۔۔کسی ایک اتوار کا ذکر ہے کہ ایک بیوی جس نے اپنے رویے سے خاوند کا جینا حرام کیا ہوا تھا۔۔اچانک خاوند کو صبح سویرے نیند سے جگایا اور نہایت احترام اور محبت سے کہا۔میرے سرتاج، اُٹھیئے، صبح ہو گئی ہے۔اور پھر شاندار تیار کیا ہوا ناشتہ خاوند کو پیش کیا۔۔ خاوندکوحیرت کے جھٹکے لگے، کیوں کہ اتوار کو بیگم صاحبہ ناشتہ باہر سے منگوانے کے لیے شوہر کو صبح صبح اٹھا کر بھیج دیتی تھیں،کیوں کہ تاخیر سے جانے پر ناشتہ ختم ہوجاتا تھا، بیوی کے بدلتے رویہ پر حیرت زدہ شوہر نے اور سہمے ہوئے پوچھ لیا۔آج کیا ہو گیا ہے تمہیں؟یہ اچانک کیسی تبدیلی آ گئی ہے تم میں؟۔۔بیوی مسکرا کر کہنے لگی۔۔ کل ہمسایوں کے گھر میں تبلیغ والی بیبیاں آئی ہوئی تھیں۔ کہہ رہی تھیں کہ جس مرد کی بیوی بد زبان اور بد اخلاق ہو گی، اللہ اُس مرد کی مغفرت فرما دے گا۔ اور ہو سکتا ہے کہ اُس مرد کو بیوی کی بد اخلاقی اور بد تمیزی برداشت کرنے پر جنت میں بھی داخل کر دے۔۔خاوند بولا۔ یہاں تک تو ٹھیک ہے، آگے؟ بیوی نے اچانک غراتے ہوئے جواب دیا۔۔جنت جانا ہے تو اپنے عملوں سے جا۔میسنا بن کر میری وجہ سے کیوں جاتا ہے؟ اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔معدہ، دماغ سے زیادہ بہترہوتا ہے، خالی ہوتا ہے تو کم از کم بتا تو دیتا ہے۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔