تحریر: محمد نواز طاہر۔۔
پاکستان میں جنرل ضیاءالحق کے مارشل لاء کے دوران ملک کے صحافیوں کی واحد نمائندے تنظیم توڑے جانے کے بعد سے لے کر اب تک مش روم کی طرز پر صحافیوں کی ان گنت تنظیمیں وجود میں آچکی ہیں ، یہاں تک کہ مذاق ہی مزاق میں تضحیک آمیز نداز سے بنائی جانے والی ویٹس ایپ پی ایف یوجے بھی وجود میں آئی جس کے خود ساختہ صدر ( ہمارے معصوم اور سادہ دوست ماجد حسین ) اب اس دنیا میں نہیں رہے ، اسی طرح اور بھی تنظیمیں بنی ہیں یہاں تک کہ دس دس افرادپر مشتمل تنظیمیں بھی بنی ہیں یعنی ان کی گنتی ، شمار ایک طرح سے ناممکن ہوگیا ہے جبکہ صحافیوں اور کارکنوں کو تحفظ فراہم کرنے والا صرف ایک قانون ( نیوزپیپرز ایمپلائیز ( کنڈیشنز آف سروس) ایکٹ سنہ انیس سو تہتر) ” نکوسا“ہے ۔ یہ قانون ختم کروانے کے لئے مختلف مراحل میں ایسے ہی کوششیں کی گئیں جیسے نیشنل پریس ٹرسٹ کے اخبارات بند کروانے کے لئے کی گئی تھیں ، اس قانون ( نکوسا) کو پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے تحٹ ختم کردیا گیا ہے ، صدر کی طرف سے پبلک کروائے جانے والے ستائیس مئی سنہ دوہزار اکیس کے آرڈیننس کی شق انچاس کے تحت یہ قانون بشمول پیمرا سمیت دیگر ادارےوں کے قیام سے متعلق قوانین منسوخ کردئے گئے ہیں ۔ لیکن عجیب بات یہ ہے کہ پی ایف یو جے کے ماسوا کھمبی کی طرح اُگی ہوئی تنظیموں نے اس توجہ ہی نہیں دی ، وجہ صاف ظاہر ہے کہ یہ معاملہ فنڈڈ این جی اوزکا ایجنڈا نہیں ہے ، اور کسی خاص ادارے کی طرف سے اس کی مخالفت اور مزاحمت کی ہدایت اور حکم جاری نہیں کیا گیا ، دلچسپ کہنا تو غیر مناسب ہوگا لیکن مضحکہ خیز اور شرمناک پہلو تو یہ ہے کہ جب نکوسا ختم کرنے کی سازش بے نقاب کی گئی تو سوشل میڈیا پر ایک ایسے سینئر صحافی جسے پنجاب یونین آف جرنسلسٹس ( پی یو جے) نے نشنل پریس ٹرسٹ کے چیئرمین یا ممبر مققر کرنے کے لئے نامزد کیا ہے ، نے تبصرہ کیا کہ نکوسا ختم ہونے سے کیا فرق پڑے گا ؟ پہلے کونسا اس قانون پر عمل درآمد ہوگا ؟ جب ان صاحب اور ان جیسے کئی سینئر ارکان پی یوجے ( زیادہ تر کا تعلق الیکٹرانک میڈیا بشمول پی ٹی وی سے یہ سوال کیا گیا کہ مکل میں ننانوے فیصد قوانین پر عملدرآمد نہیں ہوتا اور تو اور ملک کے دستور پر بھی پوری طرح عمل نہیں کیا جاتا تو کیا انہیں بھی منسوخ کردیا جانا چاہئے تو ان کا جواب بھی مضحکہ خیز تھا کہ وہ تو ملکی آئین اور قوانین ہیں ، انہیں کیسے ختم کیا جاسکتا ، یہ جہالت کی انتہا نہیں تو کیا ہے کہ وہ نکوسا کو کسی ہے بیکری پر ملنے والا قانون سمجھتے ہیں ، یعنی ان کے خیال میں یہ قانون کسی اسمبلی سے منظور شدہ نہیں ہے ؟ یہ المیہ ہے ملک میں انتہائی شوق اور اہتمام سے سینئر کہلانے والے صحافیوں کا، اب جو فیشن اور کسی خاص ضرورت کے تحت تنظیمیں بنائی گئی ہیں ، ان کے لئے یہ کوئی معاملہ ہی نہیں۔ پاکستان میں کسی اٹھائی گیر ے اور بلیک میلر کو اگر کوئی تھپڑ بھی ماردے تو یہ صحافت کی آزادی کا مسئلہ بن جاتا ہے اور ملک میں صحافت کی آزادی کے لئے بیرونی فنڈ سے چلنے والی این جی او ز اور صحافتی تنظمیں سڑکوں پر نکل آتی ہیں ، اب جبکہ خالصتاً صحافیوں اور اخباری کارکنوں کا مسئلہ ہے تو پی ایف یو جے اس پر ماسوائے میڈیا مالکان کے ساتھ جوائنٹ ایکشن کمیٹی کا حصہ بننے کے ماسوا ، خاموش ہے اس کے ذیلی یونٹ بھی چُپ ہیں جبکہ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس قانون کے خلاف مسلسل کیمپ لگائے جاتے مالکان کے ساتھ بیٹھنے کی تو ضرورت ہی نہیں ، درحقیقت نکوسا منسوخ ہی مالکان کے کہنے پر کیا جارہا ہے ۔ کیونکہ نکوسا سے حکومت کو کوئی مسئلہ نہیں بلکہ اس قانون سے صرف اخباری مالکان کو مسئلہ ہے کیونکہ ویج ایووارڈ کے لئے ویج بورڈ بھی اسی قانون کے تحت بنتا ہے اور ویج ایواڈ پر عمدرآمد کیلئے ٹربیونل بھی حکومت بناتی ہے اور کئی ماہ سے ٹربیونل کا چیئر میں مقرر نہیں کیا گیا حالانکہ ٹربیونل میں ملک کے چاروں صوبوں کے کارکنوں کے مقدمات سالہا سال سے زیر التوا ہیں ، مالکان تو پہلے بھی چند روپے کے اشتہارات پر حکومت سے سمجوتہ کرلیں گے اور کارکن پھر تنہا رہ جائیں گے ، نکوسا ختم ہونے پر وہ اپنے قانونی حقوق سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے ، یہی ایجنڈا ہے ؟ یہقانون ختم ہونے پر صحافیوں کے پاس سڑکوں پر صحافت کی آزادی کا کا نعرہ لگانے کے ماسوا کچھ نہیں بچے گا ۔ کیا یہ المیہ نہیں کہ لوگ اپنے جسم کے ٹکڑے ہوتے دیکھ رہے ہیں اور خاموش ہیں ؟ کیا یہ صحافی قوم کی رہنمائی کریں گے ؟(محمد نواز طاہر)