mein kiske hath mein apna lahu talash karu | Umair Ali Anjum

کیایہ صحافت ہے یا؟؟؟؟

تحریر: عمیر علی انجم۔۔

آزادی صحافت کے نام پر آج ملک میں جو گل کھلائے جارہے ہیں میں اس حوالے سے آج اپنے صحافی بھائیوں کے سامنے کچھ حقائق رکھنا چاہتا ہوں۔ آزادی اظہار رائے اور آزادی صحافت سے کسی کو انکار نہیں ہے لیکن ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے۔آزادی کوئی مادر پدر چیز نہیں کہ  آپ جہاں چاہیں اور جس کی چاہیں  پگڑی اچھال دیں۔ میں آپ کو ماں کی گالی دوں اور کہوں کہ یہ میرا آزادی اظہار کا حق ہے تو اس سے بڑی بداخلاقی کیا ہوسکتی ہے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے یہاں کچھ صحافیوں نے فیشن کے طور پر ملکی سلامتی کے اداروں کو کوسنے کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے۔ ایک ڈیجیٹل میڈیا کے صحافی کے لیے جس طرح پی ایف یو جے اور دوسری صحافتی تنظیمیں یکجا ہوئی ہیں اس نے میرے خدشات میں اضافہ کردیا ہے کہ یہ پوری کی پوری دال ہی کالی  ہے۔ اسد طور کا کیا صحافتی پس منظر ہے ؟ وہ کن جید صحافتی اداروں میں اپنی خدمات انجام دے چکا ہے اس حوالے سے کوئی معلومات میری معصوم صحافتی تنظیموں اور ان کے بھیڑیے نما رہنماٶں  کے پاس موجود ہیں تو میرے علم میں ضرور لائیں۔۔۔ یہاں مسئلہ اسد طور کا نہیں ایک مخصوص ایجنڈے کا ہے۔۔۔۔۔ ان کو پاکستان سے وہ خبریں چاہئیں جو بھارتی اور غیر ملکی میڈیا کی زینت بن سکیں۔۔۔۔یہ حامد میر،یہ عاصمہ شیرازی اور یہ منیزہ جہانگیر بیس سے پچاس ہزار روپے ماہانہ تنخواہ لینے والے (جو کئی ماہ تک ملتی بھی نہیں) کے نام پر پی ایف یو جے کے پلیٹ فارم پر کھڑے ہو کر ملکی سلامتی کے اداروں کو للکاریں گے تو مجھ ایسے عامل صحافیوں کا بھی حق ہے کہ میں ان کو جواب دوں۔۔۔۔ بغیر کسی تحقیقات کے اسد طور پر حملے میں کسی ادارے کو ملوث کرنے والے حامد میر اور عاصمہ شیرازی اپنے پروگرامز میں کیوں کہتے پھرتے ہیں کہ نواز شریف اور آصف زرداری پر کوئی الزام ثابت نہیں ہوا اس لیے ان کو کرپٹ نہیں کہا جاسکتا۔۔ لیکن یہ نام نہاد غیر جانبدار صحافی نیشنل پریس کلب کے باہر عدالت لگاتے ہیں اور فیصلہ سنادیتےہیں کہ اسد طور پر حملے میں فلاں ادارہ ملوث ہے اور ملک بھر کی صحافتی تنظیمیں ان کی ہاں میں ہاں ملانا شروع کردیتی ہی۔۔۔۔ ان نام نہاد صحافتی تنظیموں کے رہنماٶں کو کوئی بتائے کہ اگر اسد طور صحافی ہے تو پھر یہ جن کو ہفت روزہ اور ماہناموں کا صحافی کہہ کر ریجیکٹ کردیتے ہیں وہ بھی صحافی ہیں۔۔۔۔ یہ جن کو ڈمی اخبارات کہتے ہیں ان سے وابستہ افراد بھی صحافی ہیں۔۔۔ یہ ان کے حق میں آواز بلند کیوں نہیں کرتے؟ ان کو اپنی تنظیموں کی ممبرشپ کیوں نہیں دیتے ؟  یہ دوہرا معیار اب نہیں چلے گا۔۔۔۔ ہم صحافیوں کا کاندھا استعمال کرکے کسی کو اس بات کی اجازت نہیں دیں گے کہ وہ ملک کامنفی تاثر اجاگر کرنے کے لیے بھارتی چینلز کو مواد دے۔۔۔ یہ آزادی اظہار رائے اور آزادی صحافت کے چیمپین حامد میر کے پروگرام کی بندش پر تو مذمتی پریس ریلیز جاری کرتے ہیں لیکن اس کی ہرزہ سرائی پر انہوں نے چپ کا روزہ رکھ لیا ہے۔۔ میں یہاں واشگاف الفاظ میں کہنا چاہتا ہوں کہ ہم صحافیوں کو کسی غیر ملکی ایجنڈے کی تکمیل کے لیے کسی کا ایندھن نہیں بننے دیں گے۔۔۔ہم کسی حامد میر کے نہیں ہم پاکستان کے ساتھ ہیں۔۔۔۔میں صحافیوں کی نمائندگی کے لیے مزار قائد پر حاضری دینے کے لیے  جارہا ہوں مجھے امید ہے کہ پاکستان زندہ باد پر یقین رکھنے والے صحافی میرے ہمقدم ہوں گے۔۔۔حامد میر کے پیاروں کو حامد میر پیارا۔۔۔۔پاکستان زندہ باد کہنے والوں کو پاکستان پیارا۔۔۔۔(عمیرعلی انجم،چیئرمین کراچی یونین آف جرنلسٹس نظریاتی)۔۔

How to write on Imranjunior website
How to write on Imranjunior website
Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں