تحریر: ارشاد بھٹی
بھاگ لگے رہن، آصف زرداری، فریال تالپور کو اڈیالہ جیل میں اپنے خرچے پر ایئر کنڈیشنر، ٹی وی، فریج، ریڈیو، کولر، ٹوسٹر، کیتلی، ٹارچ، مچھر مار لائٹ، استری، آئی پوڈ، ملازم رکھنے کی اجازت، ماشاء اللہ، اڈیالہ جیل سے پہلے فریال تالپور اسپتال کے وی آئی پی روم میں تشریف فرما تھیں، اسپتال سے پہلے گھر میں اور گھر سب جیل، جبکہ آصف زرداری اڈیالہ جیل سے پہلے اسلام آباد نیب لاک اپ میں، کہنے کو یہ نیب حوالات مگر ایک بڑا ائیر کنڈیشن، اٹیچ باتھ کمرہ، ڈبل بیڈ لگا ہوا، بیڈ کی ٹانگوں کی طرف زرداری صاحب کی جدید ترین مساج چیئر پڑی ہوئی، مساج چیئر کے بائیں جانب ہینگر میں لٹکے زرداری صاحب کے تھری پیس سوٹ، شلوار قمیصیں، ٹی شرٹیں، پاجامے، نیچے زمین پر ترتیب سے لگے جوتے، جوتوں کے دائیں جانب صوفہ، صوفے کی ایک طرف ڈائننگ ٹیبل، گھر کے پرہیزی کھانوں، چہل قدمیوں کی اجازت، تکیے، چادر حتیٰ کہ پانی تک گھر سے آ رہا، ہر گھنٹے بعد شوگر، بلڈ پریشر چیک کرنے اور وقت مقررہ پر دوائیاں کھلانے والا ذاتی ملازم موجود، اب دونوں بہن، بھائی جیل میں اپنے خرچے پر جو چاہیں منگوا لیں، کھا لیں، اس سے بہتر یہ کہہ دیا جاتا، براہِ مہربانی اپنے خرچے پر گھر تشریف لے جائیں۔
بھاگ لگے رہن، نیب نے شہباز شریف کو بلایا، موصوف کا جواب آیا، کمر درد ہے، بیڈ ریسٹ پر، نہیں آ سکتا، رحم دل نیب بولا، کوئی بات نہیں، پتلی، نازک کمریا والے دلبریا، میں حاضر ہو جاتا ہوں، اب نیب بقلم خود چھوٹے میاں صاحب کے حضور پیش ہوگا، بھاگ لگ رہن، حمزہ شہباز، یوسف عباس شریف روزانہ اپنا مینیو بنائیں، یہ مینیو ان کے ملازموں کو ملے، اس مینیو کے مطابق گھر سے کھانے آئیں، دونوں کزنوں کو نیب حراست میں کپڑے، کتابیں، فریش جوس، سموسے، پکوڑے تک میسر، ائیر کنڈیشن کمرے، چہل قدمیاں الگ، مرضی ہو تو نیب تفتیش میں شامل ہو جاؤ، ورنہ طبیعت خراب، میں آرام کر رہا، کل پوچھ لینا کے آپشن موجود۔
بھاگ لگے رہن، مریم نواز کیلئے نیب لاہور میں ایک الگ پورشن مختص، کسی مرد کو اس طرف منہ کرنے کی بھی اجازت نہیں، ویسے تو سارا دن مریم علاقے کے میں کوئی اونچی آواز میں بول بھی نہیں سکتا، لیکن شام 5بجے سے 7بجے کے دوران مریم نواز کو مکمل خاموشی چاہئے اور خاموشی ہوتی ہے، سنا ہے کہ ان دو گھنٹوں میں وہ وظیفے کریں، انہیں سلاد، فروٹ اور کافی بہت پسند، کافی تو اتنی پسند کہ سموسہ بھی کافی کے ساتھ کھائیں، گھر سے جو کتابیں منگوائیں ان میں ایک کتاب ’خوابوں کی تعبیر‘ آج کل یہی پڑھ رہیں، ڈبل بیڈ روم گھر سے منگوائی چیزوں سے بھر چکا، روزانہ اپنا مینیو خود بنائیں اور مینیو کے مطابق سب کچھ گھر سے آئے، یاد آیا، ابھی چند دن پہلے مریم نواز سے نیب ٹیم نے پوچھا، چوہدری شوگر ملز کے شیئرز کہاں سے آئے، بولیں، میں نے شیئرز خریدے، پوچھا گیا، پیسے کہاں سے آئے، اپنے ماتھے پر ہاتھ مار کر بولیں، اوہ سوری! شیئرز خریدے نہیں، مجھے ٹرانسفر ہوئے، پوچھا گیا، آپ کو شیئرز چار غیرملکیوں نے ٹرانسفر کئے، آپ انہیں جانتی نہیں، پھر انہوں نے شیئرز آپ کو کیوں ٹرانسفر کر دیئے، بولیں، میں نہیں جانتی، لیکن میرے دادا انہیں جانتے، یہ دادا کی انویسٹمنٹ جو مجھے ٹرانسفر ہوئی، یہ سن کر نیب انویسٹی گیشن ٹیم نے کہا، محترمہ آپ کے دادا فو ت ہوئے 2004ءمیں، شیئرز معاملہ 2008ءکا، کیا دادا فوت ہونے کے 4سال بعد آئے، شیئر بازی کرکے چلے گئے، یہ سن کر مریم نواز نے زیر لب مسکرا کر بھولنے کی اداکاری کرتے ہوئے اپنے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر کہا ’’سوری! مجھے صحیح طرح سے یاد نہیں آرہا، آپ حمزہ سے پوچھ لیں، انہیں سب پتا‘‘ اسی شام جب نیب ٹیم نے حمزہ شہباز سے پوچھا تو وہ بولے ’’مجھے کیا پتا، شیئرز مریم کے، انہی سے پوچھیں‘‘۔
بھاگ لگے رہن، یہ ہیں ہمارے انقلابی، جب پھنسنے لگو، ہر شے مرے ہوؤں پر ڈالو، جو چیز قبروں پر نہ ڈالی جا سکے، اس سے مکر جاؤ، جج ارشد ملک کیس کلاسیک مثال، مریم نے کیا وڈیو انٹری ڈالی، وڈیو پر کیا سیاستیں کیں، جب وقت آیا وڈیو اصلی، نقلی ثابت کرنے کا، تب مریم نواز، شہباز شریف سمیت تمام لیگی وڈیو سے انکاری ہوگئے، یہی نہیں، وڈیو ماسٹر مائنڈ ناصر بٹ ملک چھوڑ گئے، اب صورتحال یہ، چیف جسٹس کو کہنا پڑ جائے ’’اب تو وڈیو کا کوئی والی وارث ہی نہیں رہا‘‘ لیکن جھوٹ، منافقت، دو نمبر سیاستیں، وڈیو سے انکاری، لیگی کہہ رہے جب سپریم کورٹ نے کہہ دیا، جج ارشدملک نے تمام ججز کے سر شرم سے جھکا دیئے، جب جج کو عہدے سے ہٹا دیا گیا تو جج کا نواز شریف کے خلاف فیصلہ ابھی تک کیوں موجود، حضور والا! سپریم کورٹ نے اسلئے کہا کہ جج ارشد ملک کا کردار شرمناک، وہ اسلئے عہدے پر نہیں رہا کیونکہ وہ اپنے بیان حلفی میں یہ مان چکا کہ ’’اسکی غیر اخلاقی سرگرمیاں، میاں طارق وڈیو بنا چکا، اس نے مان لیا کہ وہ نواز شریف، حسین نواز سمیت مجرم پارٹی کے کئی لوگوں سے خفیہ طور پر ملا، مجرم پارٹی کو قانونی مشورے دیتا رہا، مجرم پارٹی اسے بلیک میل کرتی رہی، رشوتوں کی آفر، دھمکیاں دیتی رہی، یہ سب ہوتا رہا اور اس نے اسلام آباد ہائیکورٹ یا سپریم کورٹ کو نہ بتایا‘‘، حضور جج فارغ ہوا مِس کنڈکٹ پر، ججوں کے سر شرم سے جھکے اس کے ذاتی کردار پر لیکن نواز شریف کا ری ٹرائل یا سزا کا خاتمہ تبھی ممکن جب وڈیو عدالت آئے، اصلی ثابت ہو جائے، مطلب یہ ثابت ہو جائے کہ جج نے نواز شریف کو سزا دباؤ پر سنائی، اب وڈیو عدالت لانی نہیں، کسی کیس میں کوئی ثبوت، گواہ، منی ٹریل ہے نہیں اور نواز شریف رہا ہو جائیں، ایہہ نئیں ہو سکدا۔
بھاگ لگے رہن، لیکن کیا کریں، جب پوری زندگی ہی چار سو بیسوں میں گزری ہو تو بندہ چار سو بیسیاں نہیں لگائے گا تو اور کیا کریگا، انکی چار سو بیسیوں کا تو یہ عالم، انہوں نے میاں طارق سے جج ارشد ملک کی غیر اخلاقی وڈیو خریدی، لیکن میاں طارق کو جو لینڈ کروزر دی وہ جعلی نکلی، جو چیک دیا، وہ کیش ہی نہ ہو سکا، مطلب دو نمبری میں بھی دو نمبری، بے ایمانی میں بھی بے ایمانی، سوچئے ان ایمانداروں کے حوالے ہم نے ملک کئے رکھا۔ بھاگ لگے رہن، باتیں بہت مگر سب باتوں کی ایک بات، اگر نتیجہ چاہئے، بے رحم احتساب کریں۔۔(بشکریہ جنگ)